عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ونفاس کے بعد کنوئیں کے پانی میں اتری ہویعنی اس کا اور محدث وجنبی کا حکم یکساں ہے لیکن اگر حیض ونفاس منقطع ہونے سے پہلے کنوئیں میں داخل ہوئی ہو اور اس کے اعضا پر نجاست نہ ہو تو وہ اس پاک آدمی کی مانند ہے جو ٹھنڈک حاصل کر نے کے لئے کنوئیں میں غوطہ لگائے اس لئے کہ وہ اس حالت میں کنوئیں میں اترنے سے حیض سے باہر نہیں ہوجاتی پس وہ پانی مستعمل نہیں ہوگا۔ ڈول نکالنے یا ٹھنڈک حاصل کرنے کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ اگر نماز کیلئے نہانے کے قصد سے کنوئیں میں غوطہ لگایا تو فقہا نے کہا ہے کا ازالۂ حدث ونیت قربت کے پائے جانے کی وجہ سے پانی بالاتفاق مستعمل ہوجائے گا اور یہ جو فقہا نے کہاکہ وہ پانی مستعمل ہوجائے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پانی جو اس کے بدن سے ملے گا وہ مستعمل ہوجائے گا کنوئیں کاتمام پانی مستعمل نہیں ہوگاپس امام محمدؒ کا صحیح مذہب یہ ہے کہ کنوئیں کا تمام پانی مستعمل نہیں ہوگا اس لئے جو پانی اعضا سے جدا ہو کر کنوئیں کے دوسرے پانی میں ملا ہے وہ اس پانی کی بہ نسبت مغلوب ہے جومستعمل نہیں ہوا ہے پس اس کو یادرکھئے اور اس کے اعضا پر نجاست حقیقیہ نہ ہونے کی قید اس لئے ہے کہ اگر اس کے اعضا پر نجاست حقیقہ لگی ہوگی تو بالاتفاق کنوئیں کا پانی ناپاک ہوجائے گا اور محیط میں اس مسئلہ میں یہ قید بیان کی ہے کہ اس نے کنوئیں میں اترنے کے بعد اپنے بدن کو ملا نہ ہواس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وہ شخص کنوئیں میں ڈول نکالنے کے لئے اترا اور اس نے پانی میں اپنے بد ن کو ملا توبالاتفاق وہ پانی مستعمل ہوجائے گا اس لئے کہ بدن کاملنا اس کا ایک ایسافعل ہے جو غسل کرنے کی نیت کے قائم مقام ہوجاتاہے پس وہ ایسا ہوگیا جیساکہ وہ غسل کرنے کی نیت سے کنوئیں میںاترا ہے اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس نے بدن کو میل اتارنے کی نیت سے نہ ملا ہو جیسا کہ شرح منیتہ المصلی میں مذکورہے او