عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جنابت کی حالت پر باقی رہا اور بعض نے کہا کہ امام صاحب ؒ کے نزدیک اس شخص کی نجاست مستعمل پانی کی نجاست کی وجہ سے ہے اور شروح ہدایہ میں اس کوصحیح کہاہے کہ وہ شخص امام صاحب کے نزدیک جنابت کی وجہ سے نجس ہے اور امام ابو یوسف ؒ کے قول کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک فرض کوساقط کرنے کیلئے غیر جاری پانی کی صورت میں پانی کا اپنے اوپر ڈالنا جو اس کے حکم میں ہے اس کا کرنا شرط ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ ان کے نزدیک اس وقت شرط ہے جبکہ اس نے غسل کی نیت نہ کی ہو تاکہ پانی کا اپنے اوپر ڈالنانیت کاقائم مقام ہوجائے اور چونکہ کنوئیں میں غوطہ لگانے کی صورت میں پانی کا اپنے اوپر ڈالنا نہیں پایاگیا اس لئے آدمی اسی طرح جنبی ہے اور جب فرض ساقط نہیں ہوا اور نہ رفع حدث پایاگیا او ر نہ ہی قربت کی نیت پائی گئی توپانی مستعمل نہیں ہوگا اور اپنی سابق حالت پر یعنی پاک ہوگا اور امام محمدؒ کے قول کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک پانی کا اپنے اوپر ڈالنا شرط نہیں ہے پس ان کے نزدیک آدمی پا ک ہوگیا اور پانی مستعمل نہیں ہوا اس لئے کہ قربت کی نیت نہیںپائی گئی جو کہ ان کے نزدیک پانی کے مستعمل ہونے کی شرط ہے اور اس مسئلہ میں مختار مذہب یہ ہے کہ صحیح قول کی بناء پر آدمی پاک ہے اور پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا نہیں ہے اور ہم نے اس مسئلہ کو جنبی کے بارے میں بیان کیا ہے اس لئے کہ اگر پاک آدمی نے ڈول نکالنے کیلئے کنوئیں میں غوطہ لگایا اور اس کے اعضا پر نجاست نہیں ہے تو بالا تفاق پانی مستعمل نہیں ہو گا کیونکہ اس صورت میں نہ ازالۂ حدث پایا گیا اور نہ ہی اقامت قربت پائی گئی اور اگر کوئی بے وضو یا جنبی شخص غسل کرنے کی نیت سے کنوئیں میں داخل ہوا تو بالا تفاق پانی مستعمل ہوجائے گا کیونکہ اقامت قربت (ثواب کی نیت) پائی گئی اور یہی حکم حیض و نفاس والی عورت کا ہے جبکہ وہ انقطاع حیض