عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ربعض فقہا نے اس مسئلہ میں یہ قید لگائی ہے کہ اس نے صرف پتھروں (ڈھیلوں) سے استنجا نہ کیا ہو(بلکہ پانی سے بھی استنجا کیا ہو) تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اس نے صرف پتھروں سے استنجا کیا ہوگا ( اور پانی سے استنجا نہیں کیا ہوگا) توبالاتفاق کنوئیں کا پانی نجس ہوجائے گاو اور یہ اس قول پر مبنی ہے کہ پتھروں سے استنجا کرنا نجاست کوہلکا کرنے والا ہے پاک کرنے والا نہیں ہے اور یہی مختارہے۔ (بحر ملحضاً وزیادۃ عن منحہ) خلاصہ یہ ہے کہ کنوئیں میں غوطہ لگانے والا شخص یا پاک ہوگا یا اس کے بدن پر نجاست حقیقہ یا حکمیہ مثلاً جنابت وحدث ہوگی اور ان سب صورتوں میں یا وہ ڈول نکالنے کیلئے کنوئیں میں اترا ہوگا یا ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے یاغسل کرنے کیلئے اور اس مسئلہ میں دوقسم کے احکام ہیں یعنی اس پانی کا حکم جو کنوئیں میں ہے اور پانی میں داخل ہونے والے کا حکم کہ وہ پاک ہوا یا نہیں (بدائع وتمامہ) ان سب احکام کی تفصیل اوپر بیان ہوچکی ہے اور مزید تفصیل بدائع جلد اول صفحہ ۲۳۵ اور ۲۳۶سے معلوم کریں) ۲۴۔ مستعمل پانی اگرچہ ظاہر مذہب میں پاک ہے لیکن اس کو پینا اور اس سے آٹا گوندھنا طبعی نفرت کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہے اور جن فقہا کے نزدیک مستعمل پانی نجس ہے ان کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے۔ (دروط وغیرہما) ۲۵۔ مسجد کے اندر وضو کرنا امام ابو حنیفہؒو امام ابویوسفؒ کے نزدیک مکروہ ہے اور امام محمدؒ کے نزدیک کوئی مضائقہ نہیںجبکہ اس شخص کے اعضا پر نجاست لگی ہوئی نہ ہو اور فتاویٰ قاضی خاں میں ہے کہ اگر مسجد میں کسی برتن (لگن وغیرہ) میں وضو کرے تو ان تینوں اماموں کے نزدیک جائز ہے (بحروش) وراگربرتن کے بغیر وضو کرے تووہی اختلاف ہے جو اوپرمذکور ہوا۔ (منحہ)