عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۲۳۔ اس مُحدِث کے حکم میں فقہا کااختلاف ہے جس نے ڈول نکالنے یا ٹھنڈک حاصل کرنے لئے کنوئیں میں غوطہ لگایا جبکہ اس نے پانی سے استنجا کیاہو اہو اور اس کے بدن یا کپڑوں پر نجات حقیقیہ بھی نہ ہو اور نہ اس نے وضو یا غسل کی نیت کی ہو اور نہ بدن کو ملا ہو اور اصح قول یہ ہے کہ وہ شخص پاک ہے او رکنوئیں کا پانی مستعمل ہے اس لئے کہ پانی کے مستعمل ہونے کے لئے پانی کا اعضا سے جدا ہونا شرط ہے اور جب وہ شخص پانی سے باہر نکلا توپانی کا اعضا ء سے جدا ہونا پایا گیا ہے (در) محدث حدث اصغر واکبر دونوں کو شامل ہے اور حدث اکبرخواہ جنابت سے ہویا حیض یا نفاس سے ہو جبکہ عورت حیض یا نفاس منقطع ہونے کے بعد کنوئیں کے پانی میں داخل ہولیکن اگرحیض یا نفاس منقطع ہونے سے پہلے داخل ہوگی اور اس کے اعضا ( اور کپڑوں) پر نجاست نہیں ہوگی یہ دونوں حیض ونفاس سے نہ نکلنے کے باعث اس پاک آدمی کی مانند ہیںجو کہ کنوئیں میں ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے غوطہ لگائے پس وہ پانی مستعمل نہیں ہوگا (بحروش) پس اگر کسی جنبی شخص نے ڈول نکالنے یا ٹھنڈک حاصل کرنے کیلئے کنوئیں میں غوطہ لگایا اور اس کے بدن پر کوئی نجاست نہیں ہے تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک آدمی او رپانی دونوں ناپاک ہیں اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک آدمی اپنی اسی حالت پر جنبی ہے اور پانی اسی حالت پر پاک ہے اور امام محمدؒ کے نزدیک آدمی پاک ہے اور پانی بھی پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے اور امام ابو حنیفہ ؒ کے قول کی وجہ یہ ہے کہ جب اس نے اپنے بعض اعضا کو پانی میں داخل کیا اور وہ اعضا پانی سے ملے تو اس سے اعضا کے دھونے کافرض ساقط ہوگیا کیونکہ فرض ساقط ہونے کے لئے نیت شرط نہیں ہے جب فرض ساقط ہوگیاتووہ پانی امام صاحب ؒ کے نزدیک مستعمل ہوکر ناپاک ہوگیا اور چونکہ اس کے باقی اعضا ء میں حدث باقی رہا اس لئے وہ شخص اپنی