عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بحرالرائق میں ذکرکیا ہے کہ میت کی نجاست کے حقیقی یا حکمی ہونے میں اختلاف ہے صاحب محیط نے اس کے نجاست حقیقی ہونے پر اس بات سے استدلال کیاہے کہ اگر میت قلیل پانی میں گرجائے تو وہ پانی نجس ہو جائے گا اور اگر کوئی شخص میت کو اٹھائے ہو ئے نمازادا کرے تو نماز جائز نہیں ہوگی اس سے صاحب محیط نے استدلال کیا ہے کہ میت کی نجاست حقیقی ہے حکمی نجاست نہیںہے اس لئے کہ انسان بھی ایک ایساجاندار ہے جس میں بہنے والاخون ہوتاہے پس وہ موت سے اسی طرح نجس ہوجاتاہے جیسا کہ دوسرے حیوانات موت سے نجس ہوجاتے ہیں۔ کافی اس کو صحیح کہا ہے اور بدائع میں اس کوعام مشائخ کی طرف منسوب کیاہے جیساکہ یہ تفصیل بحر الرائق کی کتاب الجناائز میں مذکور ہے پس اس سے معلوم ہوا کہ پہلے قول کی تصحیح ضعیف ہے اور امام محمد ؒ کا کلام یہاں پر کسی تاویل کے بغیر اپنے اطلاق پر ہے۔ (منحہ وش من بیان الماء المستعمل و من اول فصل البرٔ ملتقطاً) ۲۰۔ اگر کسی نے مقید پانی مثلاً عرق گلا ب یا سرکہ وغیرہ سے وضو (یا غسل) کیا تو وہ سب کے نزدیک یعنی بلا جماع مستعمل نہیں ہوگا، (بدائع وع ملتقطاً) اس لئے کہ اس سے وضو وغسل کرنا جائز نہیں ہے پس اس سے ازالہ حدث او رقربت (ثواب) کا قیام نہیں پایا گیا۔ (بدائع) ۲۱۔ اگرکسی نے منہ میں پانی لیا ور اس سے کلی کرنے کا ارادہ نہیں کیا تو امام محمدؒ کے نزدیک وہ پانی مستعمل نہیں ہوگا اور اسی طرح اگر اپنے منہ میں پانی لے کر اس کے ساتھ اپنے اعضا ء کو دھویا تب بھی یہی حکم ہے (کہ امام محمدؒ کے نزدیک منہ میں لیاہو ہو اپانی مستعمل نہیں ہوگا اور اس سے اعضا کا دھونا جائز ہے مولف) اور امام ابو یوسفؒ نے کہاکہ وہ پاک کرنے والا نہیں رہے گا اور یہی صحیح ہے اس لئے کہ یاتو فرض ساقط ہونے کی وجہ