عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
۱۷۔ اگرجنبی شخص نے غسل کیا اور اس کے غسل کا کچھ پانی (دھوون) اس کے پانی کے برتن میں ٹپک گیا تو وہ پانی خراب نہیں ہوگا لیکن اگر غسل کا مستعمل پانی اس کے برتن پر خوب بہ کر برتن میں پہنچا تووہ سارا پانی خراب ہوجائے گا (یعنی جب تک مستعمل پانی غالب نہ ہو وہ پانی پاک ہے اسی طرح وضو کرتے وقت مستعمل پانی وضو کے بارتن میں ٹپکنے سے اس کا پانی اس وقت تک پاک ہے جب تک مستعمل پانی اس پر غالب نہ ہوجائے) یعنی اور اسی طرح حمام کا حوض بھی امام محمدؒ کے قول کے بموجب خراب نہیں ہوتا جب تک مستعمل پانی اس پر غالب نہ ہو جائے وہ پاک ہی رہتاہے (ع وکبیری) جب (مستعمل پانی غالب آجائے تو سب پانی خراب اور مستعمل کے حکم میں ہوجائے گامولف) ۱۸۔ اگر اپنے اعضائے وضو وغسل کو رومال سے پونچھا اور رومال خوب بھیگ گیا یا اس کے اعضا سے قطرے ٹپک کر کسی کپڑے پر بہت زیادہ لگ جائیں تو (بالا تفاق) اس کپڑے کے ساتھ نماز جائز ہے اس لئے کہ مستعمل پانی امام محمدؒ کے نزدیک پاک ہے اور یہی مختار ہے اور اسی پر فتویٰ ہے اور شیخین کے نزدیک اگرچہ وہ پانی مستعمل اور نجس ہے لیکن یہاںضرورت اور دفع حرج کے لئے معاف ہے اور نجاست کا اعتبار ساقط ہوجائے گا (بدائع وبحروع ملتقطاً) پس جو مستعمل پانی وضو کرنے والے کے کپڑے پر ٹپک کر لگ جاتاہے وہ بالاتفاق معاف ہے۔ (بحر) ۱۹۔ میت کے غسل کا مستعمل پانی (دھوون) نجس ہے اور امام محمدؒ نے کتاب الا صل میں اس کی نجاست کو مطلق بیان کیاہے (یعنی خواہ میت پر نجاست ہویا نہ ہو) اور اصح یہ ہے کہ اگر ا س کے بدن پر نجاست نہیں ہے تو پانی مستعمل نہیں ہوگا مگر امام محمدؒ نے ا س کے مطلقاً اس واسطے کہا ہے کہ میت اکثر نجاست سے خالی نہیں ہوتی، (بحروع) لیکن