عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خون یاشراب کاایک قطرہ کنوئیں میں گرجانے سے اس کاتمام پانی نکالنا واجب ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کی گئی ہے کہ کہاکافر اگر کنوئیں کے پانی میںداخل ہوجائے تو اس کنوئیں کا تمام پانی نکالا جائے اس لئے کہ اس کاجسم نجاست حقیقہ یا حکمیہ سے خالی نہیں ہوتایہاںتک کہ اگر اس (کے بدن اور کپڑے) کے پاک ہونے کایقین ہو مثلا ً اس نے غسل کیا ہو اور اسی وقت وہ کنوئیں میں داخل ہوا ہوتو اس کی وجہ سے کچھ پانی نہیں نکلاجائے گا (بدائع وغیرہ) (کافروں کا جسم اور کپڑا عموماً اور اکثر ناپا ک ہی رہتاہے اس لئے ان کے نہائے اور پاک کپڑا پہنے بغیر اپنے انہی ہی کپڑوں سمیت کنوئیں میں اترنے یا گرنے سے تمام پانی ناپاک ہونے کاحکم کیا جائے اور یہی حکم غیر محتاط بے نماز ی شخص کے لئے بھی ہونا چاہئے واللہ علم مؤلف) (اس مسئلے کی مزید تفصیل مستعمل پانی کے بیان میں درج ہے مؤلف) ۴۔ کتے کے نجس العین ہونے میں اختلاف ہے سب سے صحیح روایت ہے یہ ہے کہ صاحبین کے نزدیک کتا نجس العین ہے اور امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک نجس العین نہیں ہے پس محیط میں ہے کہ جب کتا کنوئیں میں گرجائے اور زندہ نکال دیا جائے اگر اس کا منہ پانی تک پہنچ جائے تو کنوئیں کا تمام پانی نکالنا واجب ہے اور اگراس کامنہ پانی تک نہ پہنچے توصاحبین کے قول کے مطابق اس کاتمام پانی نکالنا واجب ہے اور امام ابوحنیفہ ؒ کے قول کے مطابق اس کا کوئی مضائقہ نہیں ہے یعنی اس کا کچھ بھی پانی نکالنا واجب نہیں ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کتا نجس العین نہیں ہے اور ہدایہ میں کہا ہے کہ کتنا نجس العین نہیں ہے (کبیری ملحضاً) پس خنزیر کے سوا کل جانوروں کاحکم یہ ہے کہ اگرکنوئیں میں گرنے کے بعد وہ جانور زندہ نکل آئے اور اس کا منہ پانی تک نہیں پہنچا اور ا س کاجسم پاک ہو تو کنواں