عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور امام ابوحنیفہ ؒ کے قول پر ہے (ط) اور اگر اس کامنہ پانی میں داخل ہوگیا (یا اس کے بدن پر نجاست کاہونامعلوم ہے) توکنوئیں کا تمام پانی نکالا جائے گا (کبیری) اور یہی حکم ان سب جانوروں کاہے جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا جیسے وحشی درندے اور پرندے کہ اگر وہ زندہ نکل آئیں اور ان کامنہ پانی میں داخل نہ ہوتو صحیح یہ ہے کہ پانی نجس نہیں ہوتا (ع) (جب تک ان کے پیشاب یا پاخانہ کردینے کا یقین نہ ہوجائے لیکن اس کا امکان قوی ہونے کی وجہ سے احتیاطاً ساراپانی نکالنا ہی مناسب ہے، مؤلف) او رحاصل کلام یہ ہے کہ اگر کنوئیں سے زندہ نکلنے والا جانور نجس العین ہے یا اس کے بدن پر نجاست کا ہونا معلوم ہے تو اس کنوئیں کاتمام پانی نکالاجائے گا (فتح) اور خنزیر کے علا جو جاندار کنوئیں میں گرنے کے بعد زندہ نکال دیاجائے اگر اس کے جسم پر نجاست معلوم نہیں تھی اور نہ ہی اس کا منہ پانی میںداخل ہوا تو وہ پانی ناپاک نہیں ہوگا اور اگر اس کے جسم پر نجاست تو معلوم نہیں تھی لیکن اس کامنہ پانی میں داخل ہو گیا ہو تواس کے جھوٹے کا اعتبار کیا جائے گا پس اگر اس کاجھوٹا پاک ہے تو وہ پانی بھی پاک ہے لیکن اس پانی سے احتیاطاً وضو نہ کیاجائے گا کیونکہ اس جانور پر نجاست ہونے کا احتمال ہے یا یہ احتمال ہے کہ کنوئیں میں گرتے وقت اس کوحدث ہوا ہواس کے باوجود اگر اس سے وضو کرلیا تو جائز ہے اور اگر اس جانور کا جھوٹا نجس ہے تو وہ پانی نجس ہوجائیگا اور تمام پانی نکالا جائے گا، اگر اس کا منہ پانی تک نہیں پہنچا تو وہ پانی نجس نہیں ہوگا اور اگر اس جانور کاجھوٹا مکروہ ہے تووہ پانی مکروہ ہے اور اس میں سے دس ڈول نکالنا مستحب ہے۔ اور بعض نے کہاکہ احتیاطاً بیس ڈول نکالنا مستحب ہے اور اگر اس کا جھوٹا مشکوک ہے تو وہ پانی مشکوک ہے اور وہ تمام پانی نکالا جائے گا جیسا کہ جھوٹا نجس پانی تمام نکالا جاتاہے کیونکہ مشکوک پانی اور نجس دونوں عدم طہوریت میں