عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں اختلاف ہے بعض نے کہا کہ وہ جنبی کی مانند ہے بعض نے کہا کہ اس کو کھانے پینے کیلئے ہاتھ منہ دھونا مستحب نہیں ہے کیونکہ اس طرح منہ اور ہاتھ سے حیض کی نجاست دور نہیں ہوتی اور حائضہ عورت کاجھوٹا پانی اس وقت تک مستعمل نہیں ہوتا جب تک اس پرغسل کرنا فرض نہ ہوجائے (کبیری) اگر جنبی شخص غسل یا وضو کئے بغیر سوئے یا اپنی بیوی سے دوبارہ وطی کرے تو جائز ہے اور کوئی مضائقہ نہیں ہے (کبیری وع) لیکن اس کو وضو کرلینا مستحب وبہتر ہے (کبیری) احتلام والے شخص کو وطی کرنے سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے اور اس کو غسل سے پہلے وطی کرنا جائز مگر مکروہ ہے (ش وحاوشیہ انواع) بلکہ احتلام والے کا حکم بھی جنبی کی مانند ہے کیونکہ جنابت خواہ جماع سے ہو یا احتلام سے دونوں کا حکم یکساں ہے اور بستان میں ہے کہ ابن مقنع نے کہاہے کہ اگر احتلام والا شخص غسل سے پہلے جماع کرے گا اس سے پیدا ہونیوالا بچہ مجنون یا بخیل ہوگا (ش وتمامہ فیہ) (۵) کوئی عورت جنبی ہوئی پھر اس کو حیض آگیا تو اس کو اختیار ہے کہ جنابت کاغسل ابھی کرلے یااس کو حیض سے پاک ہونے تک موخر کردے اور یہی حکم اس وقت ہے جبکہ حیض والی عورت کواحتلام ہوجائے یا اس سے جماع کیاجائے تو اس کو اختیار ہے کہ جنابت کا غسل ابھی کرلے یاحیض سے پاک ہونے تک موخر کرے (کبیری) (۶) ظاہر الروایت کے مطابق غسل کیلئے کم سے کم ایک صاع (تقریباً چار سیر) پانی اور وضو کیلئے ایک مُدّ (تقریباً ایک سیر) پانی کافی ہوتاہے۔ بعض مشائخ کاقول یہ ہے کہ غسل کے لئے ایک صاع پانی اس وقت کا فی ہوتاہے جب غسل میں وضو کو ترک کر دے اور اگر غسل کے ساتھ وضو بھی کرے تو ایک مد سے وضو اور ایک صاع سے غسل کرے اور اکثر مشائخ کا مذہب ہے کہ ایک صاع پانی غسل اور وضو دونوں کے لئے کافی ہے اور یہی اصح ہے بعض مشائخ