عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وکبیری وبدائع و بحر وغیرہا) اور اس وضو میں پاؤں دھونے کے بارے میںاختلاف ہے بعض کے نزدیک اگر وہ غسل کا پانی جمع ہو نے کی جگہ پڑھ کھڑا ہو کسی تختہ وغیرہ پاک اور اونچی جگہ پر نہ ہوتو اس وقت پاؤں نہ دھوئے بلکہ آخر میں دھوئے اور اگر تختہ یا پتھر وغیرہ پاک اونچی جگہ پرکھڑا ہو تو اس وضو میںپاؤں بھی دھولے اور آخر میں نہ دھوئے۔ مبسوط وہدایہ و کافی میں اسی پر اعتماد کیا ہے اور مجتبیٰ میں اس کو صحیح کہاہے ہمارے بعض مشائخ نے کہا مطلق طور پر اس وضو میں پائوں دھولے موخر کرے اگر چہ وہ پانی جمع ہونے کی جگہ پر ہی کھڑا ہو، مذہب شافعی جس یہی اصح ہے اور ہمارے اکثر مشائخ، اس پر ہیں کہ پائوں کا دھونا مطلق طور پر موخر کرے اس وضو میں نہ دھوئے اور یہ اختلاف اولیٰ وافضل ہونے میں ہے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے (بحروش ملتقطا وملحضاً) (۷) سر اور تمام بدن پر تین بار پانی ڈالنا، صحیح یہ ہے کہ پہلی مرتبہ پانی ڈالنا فرض ہے اور باقی دومرتبہ پانی ڈالنا سنت ہے (ع ودروش وغیرہا) وضو کرتے وقت کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل کیلئے کا فی ہے۔ اور یہ سنت فرض کے قائم مقام ہوجائیگی (ش) سر اور بدن پر پانی ڈالنے کے طریقے میں بھی فقہا کااختلاف ہے شمس الائمہ حلوئی نے کہاہے کہ پہلے تین بار دائیں کندھے پرپانی ڈالے پھر تین بار بائیں کندھے پر ڈالے پھر تین بار سر اور تمام بدن پر ڈالے اور بعض نے کہا ہے کہ پہلے دائیں کندھے پر تین بار ڈالے پھر سر پر تین بار ڈالے پھر بائیں کندھے تین بار ڈالے اور بعض نے کہا ہے کہ پہلے سر پر ڈالے پھر دائیں کندھے پر پھر بائیں کندھے پر ڈالے اور یہی اصح اور ظاہر الروایت ہے، نہر الفائق میں اسی طرح بیان کیا گیا ہے اور بحر وکبیری وغیرہ ہما میں اس کو ظاہرالمتن وظاہر الہدایہ وغیرہا اور ظاہر الحدیث سے تعبیر کیاہے پس اسی پر اعتماد کرنا چائیے او رمجتبیٰ میں اسی کو صحیح کہاہے اور