عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
متعدد احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے جن کو امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ذکر کیاہے پس صاحب الدروالغرر نے جو سر مؤخر کرنے کو صحیح کہاہے وہ ضعیف قول ہے (فتح وبحروع ودروش وکبیری وغیرہا ملتقطاً) اگر کوئی شخص جاری پانی میں بقدر وضو وغسل ٹھہرا ہا تو اس کا غسل مسنون طریقہ پر ادا ہوجائے گا ورنہ نہیں او ریہی حکم اس وقت بھی ہے جبکہ ٹھہرے ہوئے کثیر پانی یعنی حوض کبیر (دہ دردہ یا اس سے بڑا حوض) یا بارش میں اس قدر ٹھہرارہا ہو، لیکن ٹھہرے ہوئے پانی میں اپنے بدن کو حرکت دینے یا جگہ بدلنے سے تین دفعہ بدن پر پانی بہانے سے ترتیب اور وضو کی سنت ادا ہوگی ورنہ سنت ادا نہیں ہوگی اگرچہ حدث سے پاک ہوجائے گا اور جاری پانی میںصرف داخل ہوجانے سے ہی بدن پر تین دفعہ پانی بہانے سے ترتیب اور وضو کی سنت مکمل ہوجائے گی اس کے لئے بدن کو حرکت دینا یاجگہ بدلنا ضروری نہیں ہے (ش ملحضا) پھراپنے نہانے کی جگہ سے ہٹ جائے اور اپنے دونوں پاؤں دھولے۔ یہ حکم اس وقت ہے جبکہ ایسی جگہ کھڑا ہوکر نہایا ہو جہاں پانی جمع ہوجاتاہے لیکن اگر تختہ یاپھر وغیرہ پاک اونچی جگہ پر کھڑ اہوکر نہایا ہو تو پاؤں وضو کرتے وقت دھونا سنت ہے اب ا س کو خیر میں دھونے کی ضرورت نہیں ہے (کبیری و ع وغیرہما) (جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے) (۸) ترتیب یعنی جس ترتیب سے یہ سنتیں بیان ہوئی ہیں اسی ترتیب سے ادا کرنا۔ (علم الفقہ وغیرہ) (۹) جسم کے تمام اعضا کو پہلی مرتبہ ملنا یعنی ان پر ہاتھ پھرنا، یہ پاکی حاصل کرتے نے میں مبالغہ کیلئے ہے تاکہ باقی دو دفعہ میں تمام جسم پر پانی اچھی طرح پہنچ جائے پس غسل میں بدن کو ملنا سنت ہے واجب نہیں ہے لیکن امام ابو یوسف ؒ کی ایک روایت میں واجب ہے (م وکبیری وع وغیرہا مرتباً) (جیسا کہ فرائض غسل میں بیان ہو چکا ہے)۔ (۱۰) سنت یہ ہے کہ پانی کے استعمال میں نہ اسراف (بیجا زیادہ