عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے اندر پانی پہنچانامستحب ہے اور اس کی تائید فتاویٰ ہندیہ سے بھی ہوتی ہے جیسا کہ اس میں ہے کہ جس شخص کی ختنہ نہ ہوئی ہو اگر اس نے جنابت کا غسل کیا اور ختنہ والی کھال کے اندر پانی داخل نہ ہو ا تو اس کا غسل جائز ہے اور یہی قول مختار ہے، مستحب یہ ہے کہ اس کھال کے اندر پانی داخل کرے۔ فتاویٰ قاضی خاں میں بھی اسی کولیاہے اور ا س کے جواز کی تعلیل میں کہا ہے کیونکہ یہ کھال پیدائشی ہے اور کبیری شرح منیہ میں ہے کہ حرج غیر مسلم ہے اور اس کے پیدائشی ہونے کو اس کے اندر پانی نہ پہنچانے میں کوئی دخل نہیں ہے پس دوسرا قول اصح ہے کیونکہ تطہیر کا حکم عام ہے (کبیری ملحضا ً وزیادۃً) بدائع میں بھی دوسرے قول کوصحیح کہا ہے جیسا کہ اس میں ہے کہ بے ختنہ شخص کے لئے قلفہ کے اندر پانی پہنچانا واجب ہے اور بعض نے کہا کہ واجب نہیں ہے اور یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس میں پانی داخل کرنا بلاحرج ممکن ہے (بدائع) ان عبارتوں سے معلوم ہواکہ دونوں طرف تصحیح ہے اور دونوں اقوال مفتیٰ بہ ہیں (مولف) اور ان دونوں اقوال میں اسی طرح تطبیق ہو سکتی ہے کہ اگر قلفہ (ختنہ والی) کھال کوا کسی مشقت کے بغیر الٹ کر حشفہ (سر ذکر) کو کھولنا اور اس پر پانی پہنچانا ممکن ہے تواس طرح سے پانی پہنچانا واجب ہے اور اگرایسا کرناممکن نہ ہویعنی اس کھال کا سوراخ اس قدر تنگ ہوکہ صرف پیشاب نکلنے کا سوراخ ہو تو حرج کی وجہ سے اس کے اندر پانی پہنچانا واجب نہیں البتہ ایسی صورت میں اس حرج کا ازالہ ختنہ کے ذریعہ ممکن ہے لیکن اگر کوئی شخص ختنہ کرانے کی طاقت نہ رکھتا ہومثلاً کوئی شخص ایسی عمر میں مسلمان ہواکہ کہ بوڑھا ضعیف ہوتواس کے حق میں یہ حرج ہے اور معاف ہے (ش ملحضاً) پس صحیح قول کی بناء پر اگر قلفہ کو الٹ کر پانی پہنچانے میں مشقت نہ ہو تو قلفہ کے اندر پانی پہنچانا فرض ہے اور اگر مشقت ہو تو حرج کی وجہ سے اس کے