عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جائے تو پانی اس میں داخل ہوجائے گا اور غفلت تو داخل نہیں ہوگا تو ضروری ہے کہ اس کے اوپر سے پا نی بہائے اور پانی بہانے کے سواتنکا وغیرہ نہ ڈالے یا اور کوئی تکلف نہ کرے کیونکہ شریعت میں حرج دور کردیاگیا ہے (کبیری وش) یہ مسئلہ عورتوں کے لئے غالب اعتبار کی بناء پر وضع کیا گیا ہے ورنہ اس بارے میں مرد و عورت میںکوئی فرق نہیں ہے (کبیری) (۱۴) عور ت کوغسل فرض یعنی غسل جنابت وحیض ونفاس میں باہر کی فرج کا دھونا واجب ہے کیونکہ وہ منہ کی مانند ہے اور اس کا دھونابلا حرج ممکن ہے (ع وفتح وبحر وبدائع عم وغیرہا ملتقطاً) اور وضو میں یہ سنت ہے (ع) اور پاخانہ کے مخرج کابھی یہی حکم ہے (م) اور غسل میں فرج داخل کا دھونا فرض نہیں ہے اس لئے کہ وہ حلق کی مانند ہے یعنی یہ باطن ہے (دروش وم ملتقطاً) اور عورت غسل کرتے وقت اپنی انگلی فرج کے اندر داخل نہ کرے یہی مختار ہے (ع وغیرہ) یعنی عورت کو اپنی پیشا ب گاہ میں انگلی داخل کرنا واجب نہیں ہے اور اسی پر فتویٰ دیا گیا ہے۔ (فتح ودروش وبحروغیرہا) (۱۵) جس شخص کی ختنہ نہیں ہوئی اگر اس نے غسل جنابت کیا اور اس کے حشفہ کے اوپر والی کھال (قلفہ) کے اندر پانی داخل نہیں ہوا تو بعض فقہا نے کہا کہ اس کا غسل جائز ہے اور بعض نے کہا کہ جائزنہیں ہے اور یہی اصح ہے اس لئے کہ اس کھال کا اندرونی حصہ ظاہری جسم کے حکم میں ہے حتی کہ اگر پیشاب اس کھال میں اتر آئے تو بالا جماع وضو ٹوٹ جاتاہے اور منی اس کھال تک نکل آئے تو بالا جماع غسل واجب ہوجاتا ہے۔ زیلعی نے شرح کنز میں اس کو صحیح کہا ہے اور نوازل میں کہا ہے کہ قلفہ (ختنہ والی کھال) میں پانی داخل کرنے کوترک کرنا جائز نہیں ہے۔ او رشیخ کمال الدین ابن ہمام نے کہا کہ پہلا قول صحیح ہے اور اس کا غسل جائز ہونے کی وجہ حرج ہے نہ کہ اس کھال کاپیدائشی ہونا اور انھوں نے کہاہے قلفہ