عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرض ہے اور اگرچہ وہ مرد علوی یا ترکی ہوں اس لئے کہ مرد کو سر کا منڈوانا کسی قباحت وبدنمائی کے بغیر ممکن ہے برخلاف عورت کے یہی صحیح ہے اور اس کی تائید حضرت علی کرم علی اللہ وجہہ کی روایت سے ہوتی ہے جوکہ سنن میں مذکور ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے غسل جنابت میں ایک بال بھی دھونے سے ترک کیا تو اس کے ساتھ دوزخ کی آگ سے ایساایسا کیا جائے گا، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے اس وقت سے یہ عادت بنالی کہ میں اپنے سر پر بال نہیں رہنے دیتا ہوں بلکہ سر کے بال منڈوا ڈالتا ہوں ایسا نہ ہوکہ غسل جنابت میں کسی بال تک پانی نہ پہنچے (کبیری وم وط ودروش وبدائع وغیرہا ملحضا ومرتبا ٍ) علویوں یعنی سادات مرتضوی جو غیر فاطمی ہیں اور ترکوں کی عادت بال رکھنے اور چوٹی گوندھنے کی ہے اس لئے فقہا نے ان کو بالخصوص ذکر کاہے ورنہ سب مردوں کیلئے یہی حکم ہے (غایۃ الاوطار) (۹) اگر کسی مرد یا عورت کے سر یا ڈاڑھی کے بالوں میں گرہ پڑگئی ہو تو اس گرہ کو کھولنا فرض نہیں کیوں کہ اس سے بچنا ممکن نہیں ہے اور اگر کسی نے کوئی بال اکھاڑ دیا جس کو غسل میں دھویا نہیں گیا تھا تو ظاہر یہ ہے کہ اس کی جگہ کو دھونا فرض ہے کیونکہ اب دھونے کا حکم اس کی جگہ کی طرف منتقل ہو گیا غور کر لیجئے (ش) (۱۰) اگر بیماری وغیرہ کسی عذر کی وجہ سے عورت کو سر کا دھونا مضر ہوتو اس کے لئے سر کا دھونا معاف ہے اور باقی جسم کادھونا فرض ہے بعض نے کہاہے کہ وہ سر کا مسح کرے اور باقی جسم کو دھوئے پس اس عذر کی وجہ سے سر کا دھونا اس کو ضرر کرتاہے اور و ہ اپنے خاوند کو جماع سے منع کرے اس لئے کہ یہ خاوند کا حق ہے اس کے ضرر کا علاج یہ ہے کہ وہ سر کا دھونا ترک کرے اور باقی جسم کو دھولے اور بعض کے قول کے مطابق باقی جسم کو دھولے اور سر کا مسح کرے (دروش وط)