عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ظاہر الروایت کے مطابق نیند کے غلبہ سے سوجانے اور عمداً سو جانے میں کچھ فرق نہیں ہے اور خواہ نماز کے اندر سوجائے یا نماز کے باہر سوئے اور خواہ رکوع میں سویا ہو یا سجدہ میں سب صورتوں کاحکم یکساں ہے ، اور امام ابو یوسف ؒ سے منقول ہے کہ نماز کے اندر عملاً ً سوجانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور پہلا قول یعنی ظاہر الرایت صحیح ومختار ہے (ع وفتح وبحر ودرملتقطاً) (۱۰) اگر کوئی اس طرح سے اکڑو بیٹھا ہو کہ دونوں سرین زمین سے لگے ہوئے ہوں اور دونوں گھنٹے کھڑے ہوں اور دونوں پنڈلیوں کو دونوں ہاتھوں سے احاطہ کرلے یا کپڑے وغیرہ کسی چیز سے اپنی پیٹھ اور دونوں پنڈلیوں کو احاطہ کرلے اور اسی طرح اگر اسی حالت میں اپنا سر اپنے گھنٹوں پررکھ لے (جیساکہ اکثر مراقبہ کرنے والے کرتے ہیں) تو اس حالت میں سوجانے سے وضو نہیں ٹوٹتا (کبیری ودروش وبحر) (۱۱) اگر کوئی شخص بیٹھا ہوا سو گیا پھر وہ منھ یاپہلو کے بل زمین پر گر پڑا پس اگر وہ گرنے سے پہلے یا گرنے کی حات میں زمین پر اس کا پہلو لگنے سے پہلے بیدار ہوگیا تو بالا جماع اس کاوضو نہیں ٹوٹے گا اور اگر گرنے کے بعد زمین پر پہلو لگتے ہی فورا ً بیدار ہو گیا تب بھی اما م ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک اس کا وضو نہیں ٹو ٹے گا اور امام ابویوسف ؒ کے نزدیک اس کا وضو ٹوٹ جائے گا اور امام محمدؒ کے نزدیک اگر اس کی مقعد زمین سے اٹھنے سے پہلے ہوشیار ہو گیا تو اس کاوضو نہیں ٹوٹے گا اور اگر اس کے ہوشیار ہونے سے پہلے اس کی مقعد زمین سے اٹھ گئی تو اس کا وضوٹوٹ جائے گا اور فتویٰ امام ابو حنیفہ ؒ کے قول پر ہے اور اگر گرکر زمین پر قرار پانے کے بعد یعنی گرنے کے ذرا دیر بعد ہوشیار ہو ا تو (بالاجماع) اس کا وضو ٹوٹ جائے گا کیونکہ اب اس کا لیٹ کر سونا پایا گیا (فتح وبحروکبیری وع وش مترتباً) (۱۲) اگر بیٹھ کر سویا اور گرا تونہیں لیکن باربار آگے جھک جاتاہے اور بعض دفعہ اس کی مقعد زمین سے جدا ہو