عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عضو تناسل کی ڈنڈی میں اتر آئے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا اوراگر قلفہ یعنی اس کھال میں آجائے جس کی ختنہ کی جاتی ہے اتواس میں اختلاف ہے اورصحیح یہ ہے کہ اس کا وضو ٹوٹ جائے گا (بحرو ع و ش) اورغسل کے بارے میں صحیح ومعتمد قول یہ ہے کہ قلفہ کے اندر کا دھونا واجب نہیں اور یہ حکم دفع حرج کیلئے ہے اس لئے نہیں کہ یہ باطن کے حکم میں ہے (ش وفتح وبحر) (۸) اگر عورت کی فرجِ داخل سے پیشاب نکلا اورفرجِ خارج سے نہیں نکلا تو اس کاوضو ٹوٹ جائے گا (ع) (۹) جس مرد کا عضو تناسل کٹ گیا ہو اگر اس کے پیشاب کے مقام سے کوئی ایسی چیز نکلے جو پیشاب کے مشابہ ہو اگر وہ اس کے روکنے پر اس طرح قادر ہوکہ وہ چاہے تو روک لے اور چاہے تو خارج کر دے تب تو وہ پیشاب ہے ، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اگر وہ اس طرح پر قادر نہیں ہے تو جب تک وہ نہ بہے اس سے وضو نہیں ٹوٹتا (بحروع وفتح) (۱۰) خنثیٰ کے متعلق جب یہ ظاہر ہوجائے کہ وہ مردوں میں شامل ہے تواس کی دوسری فرج بمنزلہ زخم کے ہے اس میں سے جو کچھ نکلے گا وہ جب تک نہ بہے اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا ، سراج الوہاج وفتاوی قاضی خاں ذخیرہ ومحیط سر خسی اور اکثر معتبرات میں اسی طرح ہے (ع) فتح القدیر میں ہے کہ خنثی کے متعلق جب یہ معلوم ہوجائے کہ وہ عورت ہے تو اس کا ذکر زخم کی مانند ہے اور اگر یہ معلوم ہوجائے کہ وہ مرد ہے تو اس کی فرج زخم کی مانندہے (یعنی اس میں سے نکلنے والی رطوبت کے بہنے سے وضو ٹوٹے گا ورنہ نہیں) اور دوسرے عضو سے (جو کہ بمنزلہ اصلی عضو کے ہے) اوررطوبت محض ظاہر ہونے سے ہی وضو ٹوٹ جائے گا (فتح وبحر) لیکن تبیین میں ہے کہ اکثر فقہا کا مذہب یہ ہے کہ (دونوں صورتوں) میں) اس پر وضو واجب ہوجاتاہے (بحروع) پس خلاصہ یہ ہے کہ خنثی ٰ کے دونوں سوراخوں میں سے کسی ایک سے پیشاب نکلنے پر وضو