عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرپچھلے حصے کی طرف اس طرح لیجائے کہ سارے سر پر ہاتھ پھر جائے پھر دوانگلیوں سے دونوں کا نوں کا مسح کرے (جس کا بیان آگے آتاہے) (بحروش وع وط وکبیری) اوراقامت سنت کی ضرورت کی وجہ سے اس طرح پانی مستعمل نہیں ہوتا کیونکہ ایک پانی کے ساتھ پورے سر کا مسح اسی طریقے سے ہوسکتا ہے (بحروکبیری وط ملتقطاً) اور اس لئے بھی مستعمل نہیں ہوتا کہ جب تک پانی عضو پر ہے یعنی عضو سے جدا نہیں ہوتا، مستعمل نہیں ہوتا اور دونوں کان سر کا حصہ ہیں (فتح وش وط) اور بعض علما نے پورے سر کا مسح کرنے کا دوسرا طریقہ بیان کیاہے جیسا کہ نہر الفائق وخلاصہ ومجمع الا نہر میں ہے کہ دونوں ہاتھوں کو نئے پانی سے تر کر کے دونوں ہاتھوں کی تین تین انگلیوں یعنی چھنگلیا اوراس کے پاس والی اور بیچ کی انگلی کے سر ے ملا کر سرکے آگے کے حصہ پر رکھے اور سر کے درمیانی حصے میں آگے کی طرف سے پیچھے یعنی گدی کی طرف کھینچے اس وقت دونوں انگوٹھوں ، دونوں انگشت شہادت اوردونوں ہتھیلیوں کو سر سے الگ اٹھاہوارکھے یعنی سر سے نہ لگائے صرف وہی چھ انگلیاں لگیں جو بیان ہوئی ہیں اس کے بعد دونوں ہتھیلوں کو گدی کی طرف سے وسط سر کے دونوں جانب رکھے اور گدی سے آگے کی طرف کو کھینچے تاکہ پورے سرکا مسح ہوجائے پھر دونون انگشت شہادت کے اندرونی حصے سے کانوں کے اندر کا اور دونوں انگوٹھوں کے اندرونی حصے سے دونوں کا نوں کے باہر کا مسح کرے اور انگلیوں کی پیشت سے گردن کا مسح کرے تاکہ کانوں او رگردن کا مسح غیر مستعمل تری سے ہوجائے اس لئے کہ تری جب تک عضو پر ہے مستعمل نہیں ہوتی اور جب عضو سے جدا ہوجاتی ہے تو بلا خلاف مستعمل ہوجاتی ہے (منحہ ومجمع وط ملتقطا) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت ﷺ کے مسح کا طریقہ اسی طرح روایت کیا ہے (منحہ) محیط میں اسی طریقہ کو ذکر کیا ہے تاکہ