عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اوربار بار ایسا کرے تو مکروہ ہے اگرچہ تین دفعہ دھونے کے سنت ہونے کا اعتقاد بھی رکھتاہو لیکن اگر کسی صحیح غرض سے ہو تو مکروہ نہیں ہے۔ (ش وتمامہ فیہ) (۱۰) سارے سر کا مسح ایک بار کرنا (م ومجمع) یعنی ایک دفعہ کے پانی سے پورے سر کا مسح کرے (ع وش ودرالمنتقی) اگر کوئی شخص پورے سر کا مسح کسی عذر کے بغیر ہمیشہ چھوڑ دیگا تو گنہگار ہوگا (فتح وع ودروش۔) ہمارے نزدیک تکرار مسح مسنون نہیں ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک سنت یہ ہے کہ مسح تین دفعہ کرے اگر تین دفعہ پانی لے کر تین دفعہ مسح کیا تو احناف میں سے بعض نے کہا کہ مکروہ ہے اور بعض نے کہا کہ یہ بدعت ہے اور بعض نے کہا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔ اور فتاویٰ خانیہ میں ہے کہ نہ مکروہ ہے نہ سنت ہے اور نہ ادب ہے (بحروش وط ) اوراوجہ یہ ہے کہ مکروہ ہے (منحہ) تین دفعہ مسح کرنے کی جو روایت ہے وہ ایک پانی کے ساتھ مسح کرنے پر محمول ہے اور یہ امام ابو حنیفہ ؒ سے امام حسن ؒ کی روایت کی بنا پر مشروع ہے (ہدایہ وبحروش وط وبدائع) کتاب المجرد میں ہے کہ اگر ایک دفعہ پانی لے کر تین دفعہ مسح کیا تو مسنون ہے (فتح وش ومنحہ) اور تین دفعہ پانی لے کر تین دفعہ مسح کرنا اس لئے بھی مکروہ ہے کہ فرض مسح کرنا ہے اور تکرار مسح سے وہ غسل ہوجائے گا اور مسنون نہیں ہوگا (ہدایہ ومثلہ فی البدائع) سر کے اگلے حصے سے مسح شروع کرنا سنت ہے اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ سر کے اگلے حصے سے شروع فرماتے تھے اور اس لئے بھی سنت ہے کہ ہر عضو کو اس کے ابتدائی حصے سے دھونا سنت ہے تو اسی طرح مسح کے اعضا میں ابتدائی حصے سے مسح کرنا سنت ہے (بدائع) سر کا مسح کرنے کے مختلف طریقے احادیث میں مروی ہیں (ط) ان میں اظہر طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو نئے پانی سے تر کر کے دونوں ہتھیلیاں اور انگلیاں اپنے سر کے اگلے حصہ پر رکھ