عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طرح دھونے کے معنی یہ ہیں کہ پانی پورے عضو پر پہنچ جائے (کہیں بھی خشک نہ رہے) اوراس پر پانی بہے اور اس سے پانی کے قطرے ٹپکیں پس ہر دفعہ اس طرح دھونا چاہئے کہ اس تمام عضو پر پانی پہنچ جائے جس کادھونا وضو میں فرض ہے اوراگر پہلی مرتبہ ایسادھویا کہ تھوڑ اساعضو خشک رہ گیا پھر دوسری مرتبہ کے دھونے میں خشک ٹکڑے پر پانی پہنچا اور کچھ پھر بھی خشک رہ گیا پھر تیسری مرتبہ میں سارا عضو دھل گیاتویہ تین بار کادھونا نہ ہوا ، (ش وع) بلکہ ایک بار کا دھونا ہوا (حاشیہ ع اردود) شک کی حالت میں طمانیت قلب کیلئے تین بار سے زیادہ دھونے یاپہلے وضو سے فارغ ہونے کے بعد دوسرے وضو کی نیت سے اعضائے وضو کو دوبارہ دھونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے (ش وع وبحروط) کیونکہ وضو پر وضو کرنا نورٌعلی نور ہے (بحروط) لیکن وضو پر وضو کر نا اس وقت نورٌ علی نور ہے جبکہ پہلے وضو سے کوئی عبادت مقصودہ مثلاً نماز یا سجدہ تلاوت یا قرآن مجید کا چھونا وغیرہ ادا کرلی گئی ہو ورنہ مکروہ ہے کیونکہ یہ محض اسراف (فضول خرچی) ہے (ط) فقہا کا اور ’’کوئی مضائقہ نہیں‘‘ ، کہنا کراہتِ تنزیہی کو شامل ہے پس وضوکے کسی عضو کو تین بار سے زیادہ دھونا اگر ایک بار ہو تو مکروہ تنز یہی ہے اوراگر اس سے زیادہ یعنی چند بار دھونا ہوتو اسراف کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہوگا۔ (غایہ الاوطار ملحضاً) پس بلا عذر وضو کے عضو کو تین بار سے زیادہ دھونا تین بار سے کم دھونے کی مانند منع ہے اوراگرتین بار دھونے کے سنت ہونے کااعتقاد رکھتے ہوئے کسی صحیح غرض سے تین دفعہ سے زیادہ یاکم دھوئے تو کوئی کراہت نہیں اور اگر کسی صحیح غرض کے بغیر تین دفعہ سے کم یا زیادہ دھوئے توخواہ تین دفعہ دھونے کے سنت ہونے کا اعتقاد بھی رکھے تب بھی مکروہ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگرایک دفعہ ایسا کیا تو مکروہ نہیں ہے جبکہ وہ اس کے سنت ہونے کا اعتقاد نہ کرے اور ایسا کرنے کی عادت بنالے