عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہے کہ چھنگلیا کو پاؤں کے نیچے کی جانب سے انگلیوںکے درمیان میں داخل کرکے اوپر کھینچے سراج الوہاج میں اس پر اعتماد کیا ہے (بحروش تصرفاً) اور عالمگیری میں مضمرات سے لکھا ہے کہ انگلی نیچے کی طرف سے ڈالے ہاتھ یا پاؤں کوپانی میں داخل کردیناخلال کے لئے کافی ہے خواہ پانی جاری ہو یا نہ ہو (ع وبحروم) (۹) اعضائے وضو کو تین تین بار دھونا (بحرودروم وغیرہا) پس وضو میں جن اعضا کو دھونا فرض ہے جیسے دونوں ہاتھ اور منہ اور دونوں پاؤں ان کو تین تین بار دھوناسنت ہے (ع) یعنی ا کابر پوری طرح دھونا فرض ہے اس کے بعد دو دفعہ اوردھوناصحیح مذہب کی بنا پر سنت مؤکدہ ہے (ع وط وبحر) اگر ایک دفعہ دھونے پر اکتفا کی تو اس بارے میںتین قل ہیں ، ایک قول یہ کہ وہ گنہگار ہوگا کیونکہ اس نے سنت مشہور ہ کو ترک کیا ، دوسرا قول یہ ہے کہ وہ گنہگار نہیں ہوگا کیونکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے وہ اس کو بجالایا اور تیسرا قول یہ ہے کہ اگر وہ اس کی عادت بنالے گا تو گنہگار ہوگا ورنہ نہیں اوراس کو خلاصہ میں اختیارکیا ہے (بحروط ملتقطاً) پس اگر اس کی عادت نہیں بنائی بلکہ کبھی کبھی ایساکیا یاپانی کم میسر ہونے یا سخت سردی یا کسی اور عذر کی وجہ سے صرف ایک ایک بار اعضائے وضو کو دھویا تومکروہ نہیں ہے اور وہ شخص گنہگار نہیں ہوگا اوراگر ایسا نہیں تو گنہگار ہوگا (ش وع) ہر عضو کادوسری اور تیسری دفعہ دھونا سنت ہونے کامطلب یہ ہے کہ ہر دفعہ پوری طرح دھلناسنت مؤکدہ ہے چلوؤں کا اعتبار نہیں ہے (دروغیرہ) (یعنی اگر ایک چلو سے پورا عضو نہ دھلے تو جب پورا عضو دھل جائے گا تو وہ ایک دفعہ کا دھوناہوگا ، مؤلف) اس لئے کہ ہر عضو کادوسری اورتیسری دفعہ اس طرح دھونا سنت ہے کہ ہر دفعہ پوری طر ح دھل جائے خواہ کتنے ہی چلوؤں سے دھلے ، ہر دفعہ ایک چلو سے دھونا سنت نہیں ہے (بحروش وط) پوری