عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سنت ہے اور بعض نے کہا کہ طہارت کی تکمیل کیلئے قبل اور بعد دونوں حالتوں میں سنت ہے نہ کہ صرف ایک حالت میں کیونکہ ابتداء حقیقی بھی ہوتی ہے اور اضافی بھی، پس استنجا سے پہلے دھونا ابتدائے حقیقی ہے اور اس کے بعد دھونا ابتدائے اضافی ہے (بحروبدائع وش ودرالمنتقیٰ) اورقاضی خان نے اس کی تصحیح کی ہے (غایۃ الاوطار) ۔ جاننا چاہئے کہ اگر ہاتھوں پر نجاست حقیقیہ لگی ہوئی ہو تو وضو کے شروع میں ان کا دھونافرض ہے اوراگر ہاتھ پاک ہوں تو وضو کے شروع میں ہاتھوں کا دھونا سنت ہے اور اگر نجاست کاتو ہم ہو مثلاً استنجا کئے بغیر سو گیا تو چونکہ ہو سکتاہے کہ نیند میں اس کا ہاتھ نجس حصہ پر پڑا ہو اس لئے ایسی حالت میں سو کر اٹھنے کے بعد وضو کے شروع میں ہاتھوں کا دھونا سنت مؤکدہ ہے۔ (بحر بزیادۃ) اور اگر پاکیزہ ہو کر سو یا ہو اور سو کر اٹھنے کے بعد وضو کرے یا سو یا ہی نہ ہو اور دونوں ہاتھ پاک ہوں تو وضو کی ابتدا میںدونوں ہاتھوں کا دھونا سنت غیر مؤکدہ ہے پس سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ دونوں کو شامل ہے (غایۃ الاوطار) دونوں ہاتھوں کو تین بار دھوناسنت ہونے کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ اگر تین بار سے کم دھویا تو سنت اد اہوجائے گی لیکن کامل سنت ادانہ نہیں ہوگی۔ (ش) ابتدائے وضو میں دونوں ہاتھوں کو دھونے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر برتن چھوٹا ہو کہ جس کو اٹھا یا جاسکتا ہوتو اس میں ہاتھ نہ ڈالے بلکہ برتن کو بائیں ہاتھ سے اٹھا کر دائیں ہاتھ پر تین بار پانی ڈالے اور (انگلیوں کو آپس میں مل کر) دھوئے پھر دائیں ہاتھ سے برتن اٹھا کر بائیں ہاتھ پر تین بار پانی ڈالے اور (اس کی انگلیوں کوبھی آپس میں مل کر) کر دھوئے ، اور اگرپانی بڑے برتن میں ہوکہ جس کو اٹھیا یا نہ جاسکے اور نہ اس کو انڈیل کر پانی لیا جاسکے جیسے مٹکا اور اگر اس کے ساتھ کوئی چھوٹابرتن ہو تو بڑے برتن میں سے چھوٹے برتن کے ساتھ پانی نکال کر بطریق مذکور دونوں ہاتھ