عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آتا ہے) نیت اور بسم اللہ پڑھنا اور ہاتھوں کو دھونا ، ان تینوں امور سے وضو کی ابتدا کرنا سنت ہے اورا س میں منافات وتناقض نہیں ہے اس لئے کہ نیت دل سے کی جاتی ہے اور بسم اللہ پڑھنا زبان کا فعل ہے اوردھونا ہاتھوں سے تعلق رکھتا ہے اور زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کی صورت میںاگرچہ بسم اللہ حقیقۃ ً ابتداء میں ادا نہیں ہوگی لیکن اضافی طور پر اد ا ہوجائے گی (ش تبصرف) دونوں ہاتھوں کا دوبارہ ذراعین (دونوں بانہوں) کے ساتھ دھونا بھی سنت ہے (در) جاننا چاہئے کہ ابتدائے وضو میں ہاتھوںکو دھونے میں تین قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ یہ فرض ہے اس کی تقدیم سنت ہے فتح القدیر ، معراج اورخبازیہ میں اسی کواختیار کیا ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ فعل سنت ہے اور فرض کے قائم مقام ہوجاتا ہے اس کو کافی میں اختیار کیاہے او رتیسرا قول امام سرخسیؒ کا ہے کہ یہ فعل سنت ہے فرض کے قائم مقام نہیں ہوتا پس ان کے ظاہر وباطن کو دوبارہ دھونا چاہیے ، اورامام سرخسیؒ نے کا کہ میرے نزدیک یہی اصح کہ اور مشائخ کے ظاہر کلام سے قول اول مذہب معلوم ہوتا ہے (بحر) ، علامہ شامی ؒ نے کہا کہ ان تینوں اقوال میں کوئی مخالفت نہیںہے کیونکہ پہلے او ردوسرے قول کے مطابق دونوں ہاتھوں کو کلائی تک دوبارہ دھونا فرض نہیں ہے لیکن یہ دونوں قول دوبارہ دھونے کے سنت ہونے کی نفی نہیں کرتے بلکہ اس کی تائید کرتے ہیں اور تیسرے قول میں جو دوبارہ دھونا مذکور ہے وہ بھی اس کے سنت ہونے کی طرف دلالت کرتاہے پس یہ تینوں قول متحد ہوگئے (ش ومنحہ وتمامہ فیہما) اور مشائخ کا اس بار ے میں بھی اختلاف ہے کہ دونوں ہاتھوں کا دھونا پانی سے استنجا کرنے سے پہلے ہے یا اس کے بعد ہے ، اس بارے میں بھی تین قول ہیں بعض نے کہا کہ صرف استنجا کرنے سے پہلے ہاتھوں تو دھونا سنت ہے اور بعض نے کہا کہ صرف استنجا کرنے کے بعد دھونا