عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا اور اس کو بہتر کہا ہے ورنہ نبی کریم ﷺ و صحابۂ کرام وتابعین وائمہ عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے نیت کے الفاظ کا زبان سے ادا کرنا کسی روایت میں وارد نہیں ہوا ہے۔ (م وط) ۲۔ وضو شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا (عامہ الکتب) بسم اللہ پڑھنا ہر وضو میں سنت ہے یہ قید نہیں کہ جب سونے سے اٹھ کروضو کرے تب بہی بسم اللہ پڑھے اورمیں نہیں۔ (ع) اور امام مالک رضی اللہ عنہ نے کہاکہ یہ فرض ہے لیکن اگر زبان سے کہنا بھول جائے تو دفع حرج کے لئے دل سے بسم اللہ کہنا زبان سے کہنے کے قائم مقام ہوجائے گا (بدائع) وضو کے ابتداء میں بسم اللہ پڑھنے کا اعتبار ہے پس اگر ابتدا میں بھول گیا پھر بعض اعضاء دھونے کے بعد یاد آیا اور اس نے بسم اللہ پڑھی تو سنت ادا نہ ہوگی بلکہ مندب ادا ہوگا بخلاف کھانے کے (ع ودروم ملتقطاً) کہ وہاں اگر درمیان یااخیر میں یاد آنے پر پڑھ لے تو جتناکھا چکا ہے اور جتنا کھانا ہے دونوں کی سنت ادا ہوجائیگی (م) کیونکہ رسول ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے اور کھانے پر اللہ کا نام لینا (بسم اللہ پڑھنا) بھول جائے تو (یاد آنے پر) یوں کہے بِسمِ اللّٰہِ اَوَّلَہ‘ وَاٰخِرَہٗ اس کو ابو داؤد و ترمذی نے روایت کیا ہے۔ بظاہر یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بسم اللہ کہنے سے پہلے جو کھانا وہ کھاچکا ہے اس میں بھی نسبت حاصل ہوگئی کیونکہ اگر اَوَّلَہ‘ کے کہنے سے مافات کی تلافی نہ ہوتی تو اس کے کہنے کاکچھ فائدہ نہ ہوتا بیشک دلالۃ النص سے وضوکے درمیان میں بھی بسم اللہ کہہ لینے سے مافات کاتدارک ممکن ہے کیونکہ جب کھانے میں تدارک حاصل ہوجاتاہے جبکہ اس میں متعدد افعال پائے جاتے ہیں تووضو میں بطریق اولیٰ تدارک حاصل ہوجائے گا کیونکہ وہ فعل واحد ہے اور اس کی تائید عینی شارح ہدایہ کی اس عبارت سے بھی