عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شرط ہے تاکہ وضو عبادت ہوجائے نماز کے صحیح ہونے کیلئے شرط نہیں ہے اور تیمم میں نماز کے صحیح ہونے کیلئے نیت شرط ہے۔ (ش) ، ۳۔ مذہب یہ ہے کہ ایسی عبادت کی نیت کرے جو طہارت کے بغیر صحیح نہیںہوتی ، یا حدث دور ہونے کی ، یا نماز ادا کرنے کی ، یا وضو کی ، یاشارع کا حکم بجالانے کی نیت کرے (ع ومنحہ وم ودروش ملتقطاً) ۔ اگر طہار ت کی نیت کی تو بعض کے نزدیک کافی ہے (ط وش) فتح القدیر میں اس پر اعتماد کیا ہے کہ رفع حدث وخبث کی نیت سے وضو کرنابہتر ہے کیونکہ حدث وخبث چند قسم کا ہوتا ہے (ط علی الدروغایۃ الا وطار) اس لئے طہارت مخصوصہ کی نیت نہ ٹھہری۔ (غایۃ الاوطار) ۴۔ وضو کی نیت کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یوں کہے نَوَیتُ اَن تَوَضَّاَ لِلصَّلٰوۃِ تَقَرُّبًا اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی ’’میں نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے نماز کے واسطے وضوکی نیت کی‘‘۔ یا یوں کہے کہ میں نے حدث (یعنی بے وضو ہونے کی ناپاکی) دور کرنے کی نیت کی ، یامیں نے پاک ہونے کی نیت کی، یا نماز جائز ہوجانے کی نیت کی (ع) ۵۔ نیت اس وقت کرے جب منہ دھونے لگے (ع ودر) اشباہ میں ہے کہ دونوں ہاتھوں کو کلائی تک دھوتے وقت نیت کرنا مناسب ہے تاکہ سب سنتوں کا ثواب پائے لیکن قہستانی میں ہے کہ اس کا وقت تمام سنتوں سے پہلے ہے (در) یعنی بسم اللہ پڑھنے سے بھی پہلے ہے (غایۃ الاوطار) اور مراقی الفلاح میں ہے ’’بلکہ اس کا وقت استنجا کرنے سے پہلے ہے تاکہ اس کا تمام فعل ثواب بن جائے ‘‘ (م) نیت دل کے ساتھ کرے (ع وم) اور زبان سے اس کا تلفظ بھی کہنا مستحب ہے (ع) مستحب سے مراد یہ ہے کہ اگرنیت کے الفاظ زبان سے بھی ادا کئے تاکہ دل کے ساتھ زبان کافعل جمع ہوجائے تو اس کو مشائخ نے پسند