عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کی تو شیخین کے نزدیک مطلق طور پر وہ روزہ اقویٰ کی جگہ واقع ہوگا خواہ وہ اقویٰ روزہ اس قسم کا ہو جو مطلق نیت سے جائز ہوتا ہے یا اس قسم کا نہ ہوا اور امام محمدؒ کے نزدیک اگر اقویٰ روزہ مطلق نیت سے جائز ہونے والا ہے تو اقویٰ واقع ہوگا ورنہ کسی سے بھی واقع نہیں ہوگا بلکہ نفل ہوجائے گا۔اور یہ بات بھی پوشیدہ نہ رہے کہ جب کوئی شخص ایک روزے میں واجب کی نیت کر لے تو وہاں بھی یہی قاعدہ کام دے گا یعنی شیخین کے نزدیک مطلقا واجب کی جگہ واقع ہوگا کوینکہ وہ اقویٰ ہے اور امام محمد کے نزدیک اگر وہ واجب روزہ اس قسم کا ہے جو مطلق نیت سے درست ہوجاتا ہے تو وہ واجب سے ادا ہوگا ورنہ نفل ہوگا جیسا کہ آگے اس قسم کا بیان الگ آتا ہے اور اگر دونوں واجب روزے قوت و تاکید میں برابر ہوں تو اس کے مسائل بھی دو قسم کے ہیں یعنی وہ دونوں واجب ایک ہی جنس کے ہوں گے یا مختلف جنس کے ہونگے۔ یا مختلف جنس کے ہوں گے پس ۱۔ جو دو روزے وجوب و تاکید کے لھاظ سے قوت میں برابر ہوں اور جنس کے لحاظ سے مختلف ہوں اور کسی کو ایک دوسرے پر ترجیح نہ ہو تو وہ دونوں باطل ہوجائیں گے کیونکہ دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے پر اولیت نہیں رکھتا اور دونوں کا واقع ہونا متعدرسے اس لئے ان میں سے کوئی بھی ادا نہیں ہوگا پس اگر کسی شخص نے ایک روزے میں کفارہ ظہار و کفارہ قتل کی نیت کی یا کفارہ رمضان و کفارہ قتل کی نیت کی یا کفارہ ظہار و کفارہ یمین کی نیت کی تو ہمارے تینوں اعمہ کے نزدیک بالا تفاق کسی ایک سے بھی جائز نہیں ہے بلکہ نفل ہوجائے گا کیونکہ دونوں و صف میں مساوی ہیں اس لئے آپس کے تعارض کی وجہ سے ساقط ہوجائیں گے اور اصل نیت باقی رہ جائے گی جو نفل کے لئے کافی ہے (یعنی وہ روزہ نفل ہوجائے گا)اور امام ابو یوسف ؒ سے ایک روایت یہ ہے کہ وہ دونوں میں سے کسی