عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک جگہ واقع ہوجائے گا اور اس کو اختیار ہے کہ کسی ایک کی جگہ ہونا مقرر کرے ۔الاشباہ والنظائر میں یہ مسئلہ اسی رویات کی بنا پر اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ ۲۔اگر کسی شخص نے ایک روزے میں دو ر مضاتوں کے ایک ایک روزے کی نیت کی تو وہ کسی ایک رمضان کا روزہ بھی واقع نہیں ہوگا کیونکہ دونوں مختلف الجنس ہیں اور یہی صحیح ہے۔۳۔اگر کسی شخص نے ایک روزے میں ایک رمضان کے دو یا زیادہ قجائی روزوں کی نیت کی حتی کہ اگر ایک روزہ میں تمام ماہ رمضان کے قضائی روزوں کی نیت کی تو جائز ہے اور جائز کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک غیر معین روزہ جائز ہوجائے گا اور اس روزہ دار کو ان میں ے کسی ایک روزہ کی ادائیگی خود متعین کرلینی چاہیے۔۴۔اگر کسی شخص نے ایک روزہ میں کفارہ ظہار کے دوکے دو روزوں کی نیت کی تو ان مٰن سے ایک روزہ کی جگہ جائز ہوجائے گا استھانا یعنی وہ کفارہ ظہار کا ایک روزہ ادا ہونا مقرر کرلے۔ ۵۔ اگر کسی نے ایک روزے میں کفارہ یمین کے دوروزوں کی اکٹھی نیت کی توان میں سے ایک روزہ کی جگہ واقع ہوجائے گا یہاں تک کہ اگر کسی شخص نے دو یمین (قسموں کے)کفارے کے روزوں کی نیت سے تین روزہ رکھا تو ایک یمین (قسم) کے کفارے کی جگہ جائز ہوگا۔ قسم دوم: یعنی ایک روزہ میں دو نفل روزوں کی نیت کرنا ، علامہ ابن نجیم ؒ نے الشباہ والنظائر میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک دو گانہ نفل نمازمیں دو نفل نمازوں کی نیت کرے مثلا دو رکعت سنت فجر اور دو رکعت ٹھیت کی نیت کرے تو دونوں کی طرف سے و دوگانہ جائز ہوگا لیکن اگر ایک روزہ میں دو نفل روزوں کی نیت کرے مثلا اگر عرفہ پیر کے دن