عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کی اکٹھی نیت کی صورت میں اس روزہ کا ان دونوں میں سے کسی بھی ادا نہ ہونا یہ قیاس کی روایت پر مبنی ہے اور استحسان یہ ہے کہ وہ روز ہ قضائے رمضان سے واقع ہوگا فلیتدبر۔ اور ان مذکورہ صورتوں میں یہ اختلاف اس وقت ہے جبکہ اقویٰ روزہ ایسا ہو جس میں مطلق نیت کافی نہ ہوتی ہو لیکن اگر اقویٰ روزہ ایسا ہو جس میں مطلق نیت کافی ہوجاتی ہو تو بالا جماع اقوی روزہ واقع ہوگیا یہاں تک کہ اگر کسی شخص نے ایک روزہ میں طلوع فجر سے قبل نذر معین اور روزہ کفارہ کی نیت کی تو بالا جماع نذر معین سے ادا ہوجائیگا ار اس مسئلہ میں طلوع فجر کی قید لگانے کا فائدہ یہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد ایسی نیت کرنے سے بالا جماع نذر معین سے واقع ہونے میں کوئی تردد نہیں ہے کیونکہ طلوع فجر کے بعد نذر معین کی نیت درست ہے اور روزہ کفارہ کی نیت دن میں درست نہیں ہے اور یہ قید اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی نے قضائے رمضان کے ساتھ کفارہ ظہار یا کفارہ افطار یا کفارہ قسم کی نیت کی تو شیخین کے نزدیک اس روزہ کا قجا سے واقع ہونا اس وقت ہے جب کہ رات میں یعنی طلوع فجر سے قبل نیت کی ہو پس اگر دن میں ایسی نیت کی ہو تو بالا اتفاق وہ روزہ قجا سے واقع نہیں ہوگا بلکہ نفلی ہوجائے گا۔ ۴۔اگر کسی شخص نے ایک روزہ میں قضائے رمضان اور روزہ نذر غیر معین کی نیت کی تو بروایت قیاس شیخین کے نزدیک وہو دونوں میں سے کسی سے بھی ادا نہیں ہوگا کیونکہ دو مختلف الجنس واجبوں کی نیت میں تعارض ہے اور بروایت استحسان قضا سے واقع ہوگا کیونکہ قضا ازحج ہے۔ فائدہ: یہاں پر ووہ قائعدہ بیان کردیان ضروری ہے جس پر شیخین اور امام محمدؒ کے اختلاف کی بنا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کسی شخص نے ایک روزے میں دوواجب روزوں کی نیت