عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۔ اگر کسی شخص نے ایک روزہ مٰں قضائے رمضان اور کفارہ ظہار دنوں کی نیت کی تو استھانا وہ روزہ قجا سے واقع ہوگا یہ امام ابویوسفؒ کا قول ہے اور امام محمد کے قول کے مطابق وہ روزہ نفل سے واقع ہوگا اور یہ قیاس ہے کیونکہ دونوں روزے وجوب مٰں برابر پس دونوں منتیں تعارض کی وجہ سے ساقط ہوگئیں اور اصل روزہ کی نیت باقی رہ گئی اس لئے وہ نفلی روزہ ہوگا اور استحان کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ دونوں روزے وجوب میں برابر ہیں اس کے باوجود قضائے رمضان کا روزہ زیادہ قوی ہے کیونکہ وہ اس روزہ کا بدل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجبھ ہوا ہے اور نزر اور کفارہ ظہار کا روزہبالمقابل معتبر نہیں ہے اور اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہؒ کا قول بھی امام ابو یوسفؒ کے قول کے مطابق ہے جیسا کہ فتح القدیر باب مایوجب القضا ء والکفارہ میں اس مسئلہ کی تفصیل مذکور ہے۔ ۲۔ اگر کسی شخص نے ایک روزہ میں ماہ رمضان کے قضا روزے اور ماہ رمجان کے کفارہ کے روزہ کی نیت کی تو امام ابو حنیفہؒ و امام ابویوسفؒ کے نزدیک وہ روزہ قضا سے واقع ہوگا کیونکہ قضا کا روزہ کفارہ کے روزے سے زیادہ قوی ہے کذانی فتح القدیر۔ ۳۔ اگر کسی نے ایک روزہ میں قضائے رمضان اور کفارہ یمین کی نیت کی تو بالاجماع دونوں میں سے کوئی بھی جائز نہیں ہوگا بلکہ نفل ہوجائے گا اور اگر اس نفل روزے کو توڑدے گا تو قضا لازم نہیں ہوگی کیونکہ اس نے اپنے اوپر سے واجب اتار نے کے لئے ان دونوں قولوں مٰن اس طرح تطبیق دی ہے کہ اگر روزہ دار یہ جانتا تھا کہ میرا روزہ اس نیت سے درست نہیں ہوگا اس کے بوجود اس طرح نیت کی تو اس پر اس کے توڑدینے سے قضا لازم ہوگی اور اگر وہ اس طرح نہیں جانتا تھا تو قجا لازم نہیں ہوگی جیسا کہ مضمون کے روزے کا حک ہے اور یہ تطبیق اچھی ہے لیکن جاننا چاہیے کہ قضائے رمضان اور کفارہ یمین دونوں