عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تیسرے سال کے اور تیسرے سال میں چوتھے سال کے روزوں کی نیت کی تو کسی سال بھی ادا نہیں ہوں گے بلکہ ان سب رارمضانوں کی قجا لازم ہوگی۔ جس شخص کے رمضان کے روزے فوت ہوگئے اور وہ ماہ رمضان ناقص تھا تو اس کو اس کی قضا دنوں کی تعداد سے لازم ہوگی (یعنی انتیس روزے قضا کرے گا )کامل مہینے یعنی تیس دن کی قضا لازم نہیں ہوگی ۔اور اسی لئے فقہاء نے کہا ہے کہ جس شخص نے کسی عذرت کی وجہ سے پورا مہینہ روزے نہیں رکھے اور وہ مہینہ تیس دن کا تھا پھر اس نے کسی دوسرے مہینے میں چاند کے حساب سے ایک مہینے کے روزے رکھے اور وہ مہینہ انتیس دنا کا تو اس پر ایک دن روزہ قضا کرنا واجب ہے کیونکہ جس مہینے یں اس نے روزے نہیں رکھے اس کے دنوں کی تعداد کا اعتبار ہے کسی اور چاند کا اعتبار نہیں ہے اس لئے کہ قضا فوت شدہ کے بقدر لازم ہوتی ہو اور فوت شدہ روزے تیس ہیں پس وہ تیس روزے پورے کرنے کے لئے ایک روزہ کی قضا دیگ اور اگر کسی شہر کے لوگوں نے انتیس روزے رکھے اور چاند دیکھ کر افطار کیا اور ان میں کوئی مریض ہے جس نے روزے نہیں رکھے تو اگر اس کو یہ معلوم ہے کہ شہر والوں نے کتنے روزے رکھے ہیں تو اس پر انتیس رزوں کی قضا واجب ہے اور اگر اس کو یہ معلوم نہیں ہے تو وہ تیس روزے رکھے اس لئے کہ یہ اصل ہے اور کمی عارضی ہے۔ ۴۔ اگر کسی شخص پر ایک رمضان کے دو یا زیادہ دن کی قضا واجب ہو تو اس کو چاہیے کہ دل میں یوں نیت کرے کہ میں اس رمضان کے اس پہلے دن کا روزہ رکھتا ہوں جس کی قضا مجھ پر واجب ہے اور اگر پہلے دن کا تعین نہ کیا تب بھی جائز ہے اور یہی حکم اس وقت بھی ہے جبکہ دو رمضانوں کے دور روزوں کی قضا اس پر واجب ہو ہی مختار۔ یعنی اول