عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہوتے ہوئے روزہ رکھانا اس کے لئے ہرگز ممکن نہیں ہے اس کو افطار کی رخصت دی گئی ہے ۔پس جب اس نے روزہ رکھ لیا تو اس کا عاجز نہ ہونا ظاہر ہوگیا پس اس سے رخصت کا ہونا جاتا رہا وہ صحیح کی مانند ہوگیا یہ مسافر کی مانند پس وہ رروزہ رمضان سے واقع ہوگا اگرچہ اس نے اس کے علاوہ کسی اور روزہ کی نیت کی ہو اس لئے جب وہ اس بات کے ہوتے ہوئے کہ رووزہ اس کو ضرر نہیں کرتا توزہ رکھنے پر قادر ہوگیا تو کوئی عاقل یہ نہیں کہے گا یہ نہیں کہے گا کہ اس کو افطار کی اجازت دی جائیگی واللہ اعلم بالصواب۔ اور مسافر نے اگر کسی دوسرے واجب کی نیت کر لی تو امام صاحب کے نزدیک اسی واجب سے جس کی نیت کی ہے واقع ہوگا نہ کہ رمضان سے اس لئے کہ مسافر کو رخصت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے پس اس کو اختیار ہے کہ اس رخصت کو کسی دوسرے روزے میں صرف کرلے اس لئے کہ اس کی رخصت عجز مظنون کے ساتھ متعلق ہے جو کہ سفر ہے اور یہ موجود ہے بخلاف مریض کے کہ اس کی رخصت عجز حقیقی کے ساتھ متعلق ہے اور جب اس نے روزہ رکھ لیا تو یہ ظاہر ہوگیا کہ وہ عاجز نہیں ہے(اس لئے اب اس کو رخصت بھی نہ رہی او اگر مسافر نے نفل روزے کی نیت کی تو امام صاحب سے دو روایتیں ہیں ار دونوں صحیح ہیں اور ان یں اصح یہ ہے کہ رمضان سے واقع ہوگا اس لئے کہ نفل کا فائدہ ثواب ہے اور وہ فرض وقتی مٰں زیادہ ہے اور اگر مریض و مسافر نے مطلق روزے کی نیت کی تو تمم روایات کہ بنا پر رمضان کا روزہ واقع ہوگا۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ مریض خواہ نفل کی نتی کرے یا مطلق نیت کرے یا کسی دوسرے واجب کی نیت کرے تو ان سب صورتوں میں صحیح یہ ہے کہ وہ روزہ رمضان کا واقع ہوگا اور اگر مسافر بھی اسی طرح نیت کرے تب بھی یہی حکم ہے سوائے اس صورت