عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زوال سے پہلے مسلمان ہوگیا اس نے نفلی روزہ کی نیت کی تو وہ امام ابو یوسفؒ کے نزدیک روزہ دار ہوگا۔ اور دوسری قسم م؎جس میں نیت کا رات میں ہونا شرط ہے وہ روزے ہیں جو ان تین قسم کے روزوں کے علاوہ ہوں جن کا اوپر ذکر چکا ہے یعنی جن میں نیت کا رات میں ہونا شرط نہیں ہے ان کے علاوہ باقی سب روزے وہ ہیں جن یں نیت کا رات میں ہونا شرط ہے (اور ان میں نیت کا آخری وقت طلوع صبح صادق سے ذرا پہلے تک ہو۔ اور وہ یہ ہیں رمضان کے قضائی روزے نذر مطلق کے روزے، نذر معین کے قضائی روزے ان نفل روزوں ک قضا جن کو شروع کرنے کے بعد توڑ دیا ہوا اور چاروں قسم کے کفارات کے روزے یعنی کفارہ ظہار کفر قتل کفارہ قسم کفارہ افطار رمضان اور جو ان کے ساتھ ملحق ہیں۔ یعنی جزائے صید کے روزے جزائے حلق کے روزے جزائے ہدی تمتع و قرآن کے روزے ۔ پس ان سب روزوں میں نیت کا رات میں ہونا شرط ہے یعنی نیت کا فجر کے ساتھ متصل ہونا اس طرح پر کہ فجر کے جزو اول کے ساتھ متصل ہو، اگرچہ متصل ہونا حکما ہو اور حکما کا مطلب یہ ہے کہ رات کے کسی حصہ مٰں نیت کر لی ہو اور یہ حکما اتصال ضرورت کی وجہ سے شرع نے جائز کر دیا ہے کیونکہ صبح کے صحیح وقت کی اٹکل میں مشقت اور حرج ہے اور اکثر لوگ صبح صادق کا صحیح وقت معلوم کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ غفلت اور نیند کا وقت ہے اور ابرو غیرہ کی وجہ سے بھی اس کا معلوم ہونا ممکن نہیں ہے اور اکثر لوگ اس کی صحیح پہچان سے بھی ناواقف ہوتے ہیں اور حرج شرع میں دور کر دیا گیا ہے اس لئے رات کو نیت کر لینا درست ہوا۔ پس اگر ان روزوں میں سے کسی روزے کی نیت دن یں کی تو وہ نفلی روزہ ہوجائے گا اور اس کا پورا کرنا مستحب ہوگا اور اگر اس کو توڑے گا تو