عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جائے جائز ہے اور یہی صحیح ہے اور اس مسئلہ میں مسافر و مقیم تندرست و بیمار میں کچھ فرق نہیں ہے اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ طلوع فجر کے بعد نصف الہنار شرعی سے پہلے تک روزہ کے خلاف کوئی فعل اس سے ظاہر نہ ہوا ہو اور اگر اس سے پہلے روزہ کے خلاف کوئی فعل واقع ہوا مثلا کھانا پینا یا جماع کرنا اگر جان بوجھ کر ہو تو بلاخلاف اس کے بعد نیت جائز نہ ہوگی اور اگر بھول کر ایسا فعل ہوا ہو تو اس میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ رمضان کے ادائی روزہ اور نذر معین کے روزے مٰں اس کے بعد اس کی نیت جائز ہوجائے گی اور نفل وغیرہ میں جائز نہیں ہوگی جیسا کہ آگے مکروہات کے بیان میں آتا ہے ۔ اور جن روزوں میں دن کے وقت میں یت کرنا جائز ہے تو ان کی نیت رات میں کرنا افضل ہے تاکہ اختلاف فقہائے بچ جائے ۔ اگر دن میں روزہ کی نیت کرے تو یوں نیت کرے کہ جب سے دن شروع ہوا ہے اس وقت سے روزہ دار ہوں یہاں تک کہ اگر کسی نے زوال سے پہلے یہ نیت کی کہ جب سے نیت کرتا ہوں تب سے روزہ ہے شروع دن سے نہیں تو وہ روزہ دار نہیں ہوگا۔ اور اگر کوئی شخص رمضان کی کسی رات میں یادن میں بہوش ہوگیا تو اگر زوال (یعنی نصف النہار شرعی ) سے پہلے فاقہ ہوگیا اور روزہ کی نیت کر لی تو جائز ہے مجنون کا بھی یہ حکم ہے اور طرح جب کوئی شخص رمضان میں دن کے شروع ہونے وقت اسلام سے مرتد ہوگیا پھر مسلمان ہوگیا اور زوال دو پہر شرعی سے پہلے روزہ کی نیت کر لی تو وہ روزہ دار ہے جو شخص نفلی روزہ سے ہوا پھر اسلام سے مرتد ہوجاء پھر زوال سے پہلے مسلمان ہوجائے اور روزہ کی نیت کر لے تو امام یوسف ؒ کے نزدیک وہ روزہ دار ہوجائے گا اور اگر اس روزہ کو تووڑ دے گا تو اس پر اس کی قضا لازم آئیگی اور اگر کوئی نصرانی رمضان کے علاوہ دنوں مٰں