عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کی قضا واجب نہیں ہوگی۔ لیکن رمضان کے قضائی روزہ میں اختلاف ہے پس اگر کسی شخص نے دن میں یعنی طلوع فجر کے بعد قضا روزہ کی نیت کی تو یہ روزہ قضا کی طرف سے صحیح نہیں ہوگا۔اور امام نسفیؒ نے کہا کہ یہ نفل ہوجائے گا اور اگر توڑے گا تو بعض کے نزدیک قضا لازم آئے گی جبکہ وہ جانتا ہو کہ یہ قضا کا روزہ ہے اور یہ دن میں نیت کرنے سے درست نہیں ہوتا لیکن اگر وہ یہ نہیں جانتا تو وہ روزہ شروع کرنے سے اس پر لازم نہیں ہوتا جیسا کہ مظنون کا حکم ہے اور بحر میں اس کے جواب میں کہا ہے اور نہر میں بھی اسی کا اتباع کیا ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ ترجیح مطلقا قضا کرنے کے حکم کو ہے خواہ وہ اس بات کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو اس لئے کہ دارالاسلام میں احکام کا نہ جاننا معتبر نہیں خصوصا اس مسئلہ میں کیونکہ یہ مسئلہ یعنی قضا روزے کی نیت دن یں کرنے سے اس کا جائز نہ ہونا ظاہر متفق علیہ ہے پس وہ مظنون کی مانند نہیں ہے (اور مضنون کا مسئلہ نفلی روزہ کے احکام میں مفصل مذکور ہے اس کی طرف رجوع کریں ۔پس جس شخص نے طلوع فجر کے بعد قضا روزے کی نیت کی اگرچہ اس پر وہی روزہ لازم ہے جس کی اس نے نیت کی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی نیت کا رات میں ہونا شرط ہے تو وہ معذور نہیں ہوگا اور اس روزہ کا شروع کرنا درست ہوجائے گا پس اگر اس کو توڑدیگا تو اس کی قضا لازم آئیگی۔ پھر جانا چاہیے کہ رات میں یعنی غروب آفتاب کے بعد چلوع فجر سے پہلے تک رات کے کسی حصہ میں نیت کرلینا ہر قسم کے روزے کے لئے کافی ہے بشرطیکہ پھر اس نیت سے طلوع فجر تک رجوع نہ کرے۔ جیسا کہ گذر چکا ہے اور ہر قسم کے روزے یں رات سے نیت کرلینا افضل ہے۔ یعنی ہر روزہ میں افضل یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو طلوع فجر کے متصل ہی نیت کرے یا پھر رات کے کسی حصہ میں نیت کرے۔