عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کبری کے وقت یا اس کے بعد بھی روزہ کی نیت کرنا درست نہیں ہے کیونکہ ان روزوں کے لئے دن کے اکثر حصہ میں نیت کے واقع ہونے کا اعتبار ہے اور ضحو کبریٰ سے مراد نصف النہار شرعی ہے اور شرعی نصف النہار (دوپہر) طلوع فجر سے ضحوہ کبری کے وقت تک ہے نہ کہ زوال کے وقت تک اور یہی اصح ہے اس لئے زوال کا وقت سورج کے طلوع ہونے سے سے غروب ہونے تک کے وقت کو نصف النہار کہا گیا ہے اور روزہ کا وقت طلوع فجر سے شروع ہوت ہے اور نیت کا پایا جانا دن کے اکثر حصہ مٰں ضروری ہے کیونکہ اکثر کے لئے کل کا حکم ہے اور دن کے اکثر حصہ میں ہونا اس وقت متحقق ہوگا جبکہ ضحوہ کبریٰ سے پہلے ہو اگرچہ تھوڑا ہی سا وقت پہلے ہو۔ اور یہ جو ہم نے نصف النہار شرعی سے پہلے کہا ہے یہ الجامع الصغیر کی روایت کے مطابق ہے جوکہ اصح ہے اور قدوری وغیرہ کی روایت کو اس کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ترک کردیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ طلوع فجر سے زوال تک کا وقت ہے اور خلاصہ یہ ہے کہ ہم طلوع صبح سے غروب آفتاب تک کے وقت کو گھنٹوں سے دو حصوں میں تقسیم کرینگے پھر جب نیت اس کے اکثر حصہ میں پائی گئی تو ان تینوں قسم کے روزوں کے لئے صحیح ہوجائیگی ورنہ نہیں۔ جاننا چاہیے کہ دن دو قسم پر ہے عرفی و شرعی عرفی دن آفتاب کے طلو ہونے سے غروب ہونے تک ہوتا ہے اور شرعی دن صبح صادق طلوع ہونے سے غروب آفتاب تک ہوتا ہے ۔نصف النہار شرعی کو فقہا ء کی اصطلاح میں ضحہ کبری کہتے ہیں اور ان تین قسم کے روزوں میں جو پہلی قسم میں مذکور میں ضحوہ کبری سے پہلے تک نیت کا وقع ہوجانا لامزی ہے ۔ضحوہ کبریٰ شروع ہوجانے پ نیت کرنا درست نہیں ۔ پس رمضان کے ادائی روزے اور نذر معین اور نفل روزے کی نیت رات سے لے کر نصف الہنار شرعی (دوپہر شرعی) سے پہلے تک کسی بھی وقت کر لی