عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رکھوں گا پھر سوگیا یا بہیوش ہوگیا یا غافل ہوگیا یہاں تک کہ اگلے دن کا سورج ڈھل گیا یعنی نصف النہار شرعی کا وقت ہوگیا۔تو وہ نیت جائز نہ ہوگی اور اگر اس نے سورج غروب ہونے کے بعد نیت کی تھی تو جائز ہوگی۔ یا اس نے سورج غروب ہونے کے بعد دوبارہ نیت کی تھی تو جائز ہوگی۔ اور اگر طلو ع فجر کے ساتھ روزہ کی نیت کی تو جائز ہے کیونکہ نیت کا روزہ کے شروع ہونے کے بالکل ساتھ ہونا واجب ہے اس سے پہلے ہونا واجب نہیں بلکہ جائز ہے۔ اگر یہ نیت کی کہ آخری رات میں سحری کھائے گا پھر صبح کو روزہ سے ہوجائے گا تو نیت صحیح نہیں ہے جیسا کہ اگر کوئی عصر کے بعد آئندہ کل کے روزہ کی نیت کرے تو درست نہیں۔ نیت کے آخری وقت میں فقہا کا اختلاف ہے اور نیت کا آخری وقت احناف کے نزدیک دو قسم پر منقسم ہے اول وہ روزے ہیں جن میں نیت کا رت میں ہونا شرط نہیں لیکن رات میں نیت کرنا افضل ہے ۔دوم وہ روزے ہیں جن میں نیت کا رت میں ہونا شرط ہے جن رزوں میں نیت کا رات میں ہونا شرط نہیں ہے وہ یہ ہیں ادائے رمضان کے روزے اور ادائے نذر کے وہ روزے جن کا زمانہ معین ہے یعنی جس نذر میں دن یا تاریخ و مہیہنہ معن کیا ہو اور نفل کا ادائی روزہ اور نفل سے مراد فرض دوا جب کے علاوہ باقی سب روزے ہیں یعنی اس بارے مٰں نفل کا حکم عام ہے سنت و مستحب و مکروہ سب کو شامل ہے۔پس ان تین قسم کے روزوں میں یعنی رمضان کے ادائی روزوں و نذر معین اور نفل ہیں ۔نیت کا وقت غروب آفتاب کے بعد سے شروع ہو کر ضحوہ کبری ٰ تک ہے (یعنی ان روزوں میں نیت کا آخری وقت ضحوہ کبری سے ذرا پہلے تک ہے پس غروب سے پہلے یا عین غروب کے وقت ان کی نیت کرنا درست نہیں ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا اور ضحوہ