عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شھر رمضان۔ یعنی میں نے رمضان کے مہینے کے کل کے روزے کی نیت کی یا یوں کہے نویت ان اصوم غدا للہ تعالیٰ من قرض رمضان ھذا یعنی میں نے نیت کی اللہ تعالیٰ کے لئے کل اس رمضان کا فرض روزہ رکھوں گا اور دن میں نیت کریتو یوں کہے نویت ان اصوم ھذاالیوم للہ تعالیٰ من فرض رمضان یعنی میں نے نیت کی کہ اللہ تعالیٰ کے لئے آج رمضان کا فرض روزہ رکھوں گا۔ اور اگر یہ کہا کہ انشاء اللہ (خدا چاہے تو) کل روزہ رکھوں گا تو نیت صحیح ہوگئی یہی صحیح ہے اور اسحسانا جائز ہے اس لئے کے یہ انشاء اللہ کہنا حقیقت میں استثناء کے معنی ٰں نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے اور توفیق چاہنے کے لئے ہے لیکن اگر حقیقتا استثنا ء کا ارادہ کیا ہو تو وہ روزہ دار نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ جب اس نے نیت کو معلق کرنے کا قصد کیا تو نیت میں استقلال نہیں رہا۔۔اگر روزہ رکھنے پر پکا ارادہ نہ کیا بلکہ تردد و تذبذب ہوا تو اس کی نیت درست نہیں ہوگی اگرچہ انشاء اللہ بھی نہ کہے ۔ اگر ماہ رمضان میں اس حال میں صبح کی کہ نہ روزہ رکھنے کی نیت کی اور نہ بے روزہ رہنے کی نیت کی اور وہ جانتا ہے کہ یہ دن رمضان کا ہے تو اس کے روزہ دار ہوجانے یں دو رواتیں ہیں اور اظہر یہ ہے کہ وہ روزہ دار نہیں ہوگا کیونکہ یہ علم ہوتاکہ یہ دن رمضان کا ہے روزہ در ہونے کے لئے روزہ کی نیت کا قئم مقام نہیں ہوتا ہے۔ ۷۔رمضان میں ہر دن کے روزہ کے لئے نئی نیت کرنا ضروری ہے یعنی ہمارے تینوں اماموں کے نزدیک ہر روز کے لئے نئی نیت کے بغیر روزہ جائز نہیں ہے خواہ نیت رات یں یا نصف النہار سے قبل ہو اور خواہ وہ مسافر ہو یا مقیم ہو۔ اور امام زفروامام مالک ؒ نے کہا کہ تمام مہینے کے لئے ایک نیت کافی ہے جیسا کہ نماز کے لئے۔