عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
۱۔نیت لغت میں پکے ارادہ کو کہتے ہیں اور شرع میں یت اس کو کہتے ہیں کہ کسی کام کے کرنے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا تقرب حاصل کرنا کا اردہ کرے۔اور روزہ کی نیت یہ ہے کہ دل مٰں جاانتا ہو کہ وہ روزہ رکھتا ہے یعنی نیت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے ال کے ساتھ آنے والی کل کے روزہ کا پکا ارادہ کرے۔ اور کوئی مسلمان شاذ و نادرہی رمضان المبارک کی راتوں میں اس پکے اردہ سے خالی ہوتا ہے۔یعنی وہ یا تو کوئی فاسق بے شرم ہوگا یا غروب آفتاب یا اس سے بھی پہلے سے طلوع فجر تک سوتا رہ گیا ہو یا اس پر اس وقت تک غشی طاری رہی ہو ۔اور دل سیپکا ارادہ کرنے سے مراد ہے یہ ہے کہ جو شخص روزہ کا مکلف ہو وہ دل میں پکا ارادہ رکھتا ہو (ڈھلمل ارادہ نہ ہو) پس اگر کسی نے یہ نیت کی کہ اگر کل کسی دعوت میں بلایا گیا تو وہ روزہ نہیں رکھے گا اور اگر نہیں بلایا گیا تو روہ روزہ رکھے گا (یعنی مشروط نیت کی )تو وہ اس نیت سے دروزہ دار نہیں ہوگا۔ اور جن روزوں کے لئے تعین سے شرط ہے ان میں یہ شرط ہے کہ اپنے دل میں جانتا ہو کہ کونسا روزہ رکھتا ہے اور جن روزوں مین تعین شرط نہیں ہے ان یں صرف اتنا جاننا کافی ہے کہ میں روزہ رکھتا ہوں۔ دل سے نیت کرنا روزہ کی صحت کے لئے شرط ہے اور زبان سے نیت کے الفاظ کہنا شرط نہیں ہے اور سنت یہ ہے کہ زبان سے بھی کہہ لے اور سنت سے مراد مشائخ کی سنت ہے نبی کری ﷺ کی سنت نہیں کیونکہ آنحجورﷺ سے زبان سے کہنا ثابت نہیں پس اگر زبان سے نہ کہہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ نیت کا افضل وقت یہ ہے کہ روزہ افطار کرتے وقت اگلے دن کے رزہ کی نیت بھی کر لے اگر رمضان کے روزہ کی نیت رات میں کرے تو زبان سے یوں کہے وبصوم غدنویت من