عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مدد نہ کی ہو، پس اگر ان میں سے کوئی چیز کی ہوگی تو وہ شکار حلال کے لئے جائز اور اس محرم کے لئے حرام ہوگا ۸؎ (۸) اگر محرم کو احرام کی حالت میں کھا نے کے لئے شکار کرنے یا مردار کھانے کے سوا او رکچھ نہ ملے اور وہ اس کے لئے مجبور ومضطر ہوجائے تو مبسوط میں ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ وامام ابو یوسف رحمہم اﷲ کے قول کے مطابق شکار میں سے کھائے اور اس کے بعد اس کی جزا ادا کردے اور مردار نہ کھائے اس لئے کہ شکارکا کھانا مختلف فیہ ہے بخلاف مردار کھانے کے اور اس لئے بھی کہ مردار کی حرمت زیادہ شدید ہے ، یہی وجہ ہے کہ شکار کی حرمت احرام یا حرم سے باہر جانے پر دور ہوجاتی ہے پس یہ حرمت وقتی ہے اور مردار کی حرمت دائمی ہے اس لئے اس پر واجب ہے کہ دونوں حرمتوں میں اس اغلظ کی بجائے اخف ( ہلکی) حرمت کا قصد کرے، اور شکار اگرچہ احرام کے ممنوعات میں سے ہے لیکن ضرورت کے وقت اس کی ممانعت دور ہوجاتی ہے پس شکار کو ذبح کرکے کھائے اور اس کی جزااد ا کرے اھ، لیکن امام زفرؒ کے نزدیک مردار کو کھائے شکار کو ذبح کرکے نہ کھائے اور تجنیس وفتاویٰ قاضی خاں میں ہے کہ امام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہم اﷲ کے قول پر اگر محرم مردار اور شکار کی طرف مضطر ہوتو مردار کا کھانا اولیٰ ہے اور امام ابو یوسف وامام حسن رحمہم اﷲ نے کہا کہ شکار کو ذبح کرے اور اس کا کفارہ ادا کرے ۱؎ اور فتویٰ پہلے یعنی طرفین کے قول پر ہے (یعنی مردار اولیٰ ہے ) جیسا کہ شرنبلالیہ میں ہے اور بحر الرائق میں بھی اسی کو ترجیح دی ہے جیسا کہ اس میں کہا ہے کہ یہ اس لئے ہے کہ شکار کے کھانے میں دو حرمتوں یعنی شکار کو ذبح کرنے اور کھانے کا ارتکاب ہوگا اور مردار کے کھانے میں ایک حرمت یعنی صرف کھانے کاارتکاب ہوگا اور یہ اختلاف اولیٰ ہونے میں سے