عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ادا کرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے کی صورت میں ہے)۔ قدوری نے اپنی شرح مختصر الکرخی میں کہا ہے کہ اس مسئلہ میں کوئی روایت نہیں ہے پس یہ کہنا بھی جائز ہے کہ اس پر دوسری جزا واجب ہوگی اور یہ کہنا بھی جائز ہے کہ یہ جزا پہلی جزا میں داخل ہوجائے گی ( اور مزید واجب نہیں ہوگا) اور ذبح کرنے والا خود کھائے یا اپنے کتے کو کھلائے دونوں صورتوں میں جس قدر گوشت کھایا کھلایا ہے اس کی قیمت واجب ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنے احرام کے ممنوع فعل سے نفع حاصل کیا ہے ۱؎ (۳) اگر اس ذبیحہ میں سے ذبح کرنے والے کے علاوہ کسی اور محرم یاحلا ل شخص نے کھایا تو اس پر اس کا گوشت (مردار) کھانے کی وجہ سے بلا خلاف توبہ واستغفار کے سوا اور کچھ واجب نہیں ہوگا کیونکہ یہ اس پر ایک جہت سے یعنی مردار ہونے کی وجہ سے حرام ہے، یہ حکم ان سب فقہا کے قول کے مطابق ہے کیونکہ اس نے جو کچھ کھایا ہے وہ اس کے احرام کے محرمات میں سے نہیں ہے بلکہ دوسرے شخص کے محرمات میںسے ہے اور و ہ ذبیحہ جس طرح ذبح کرنے والے کے لئے حرام ہے ہمارے فقہا کے نزدیک اسی طرح دوسرے شخص کے لئے بھی حرام ہے خواہ وہ محرم ہو یا حلال ۲؎ (۴) اگر حلال شخص نے حرم کا شکار ذبح کرکے اس کی جزا ادا کرنے کے بعد اس میں سے کھالیا تو اس پر مردار کھانے کی وجہ سے بالاتفاق استغفار واجب ہوگا جزا میں اور کچھ واجب نہیں ہوگا ۳؎ نہر الفائق میں متنبہ کیا ہے کہ اس مسئلہ میں جزا ادا کرنے کی قید اتفاقی ہے ۴؎ (۵) اگر حلا ل شخص نے شکار کیا اور محرم نے اس کے لئے ذبح کیا ، یا محرم نے شکار کیا اور حلال نے اس کے لئے ذبح کیا تو دونوں صورتوں میں وہ ذبیحہ مردار (وحرام )ہوگیا