عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حالت میں اس جانور کو ذبح کرے یا بغیر اضطرار ذبح کرے اور خواہ کسی دوسرے شخص نے اس کو مجبور کیا ہو یا اپنی خوشی سے ایسا کرے ہر صورت میں یہی حکم ہے ( کہ وہ مُردار ہے اور اس کا کھانا جائز نہیں ہے) اور امام محمدؒ نے کہا ہے کہ جب اس جانور کو حدودِ حرم سے باہر کردیا تو وہ حل کاشکار ہوگیا اب اس کو ذبح کرنا اور اس کے گوشت سے فائدہ اٹھاناحرا م نہیں ہے خواہ اس کی جزا ادا کردی ہو یا ادانہ کی ہو، لیکن اس فعل کو مکروہ سمجھتا ہو ں اور میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اس کے کھانے سے پرہیز کیا جائے پس اگر اُس شخص نے اس ذبیحہ کو بیچ دیااور وہ رقم اس کی جزا میں شامل کردی تو یہ اس کے لئے جائز ہے اھ ۳؎ (۲) اگر ذبح کرنے والے محرم شخص نے اس ذبیحہ میں سے تھوڑا یازیادہ کچھ گوشت کھالیا تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس پر اس کی جزا واجب ہوگی اور وہ اس قدر گوشت کی قیمت ہے جتنا اس نے کھایا ہے اور امام ابو یوسف وامام محمد وامام شافعی رحمہم اﷲنے کہا ہے کہ اس پر توبہ واستغفار کے سوا اور کچھ واجب نہیں ہے یعنی اس گوشت کے کھانے کی وجہ سے اس پر کچھ جزا واجب نہیں ہے صرف توبہ واستغفار کافی ہے ۴؎ اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس نے اس کی جزا ادا کردی ہو اس کے بعد اس گوشت میں سے کھایا ہو ، پس اگر جزا ادا کرنے سے پہلے کھایا تو قاضی نے اپنی شرح مختصر الطحاوی میں اور حلوانی وتمرتاشی وصاحب المصطفیٰ نے ذکر کیا ہے کہ (اس صورت میں ) اس پر ایک ہی جزا واجب ہوگی اور اس کا گوشت کھانے کی وجہ سے بالا جماع اس پر کچھ واجب نہیں ہوگا اور جو گوشت اس نے کھایا ہے اس کا ضمان بالاتفاق اس جزا میں داخل ہوجائے گا اور جوہر ہ میں ہے کہ بعض کے نزدیک اس صورت میں بھی امام صاحب اور صاحبین وغیرہ کا وہی اختلاف ہے( جو جزا