عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مثل نہیں ہے اور جن کی مثل ہے ان کی جزا ان کی مثل دینا واجب ہے ۸؎ اور مختار مذہب یہ ہے کہ نظیر اس وقت جائز ہے جبکہ نظیر کی قیمت اس شکار کی قیمت کے برابر ہو۹؎ (۶) مقتول شکار کی قیمت لگانے میں پیدایشی حُسن وخوبی کااعتبار ہوگا، سکھایا ہواہونے کا اعتبار جزا میں نہیں ہوگا ۱؎ یعنی راجح قول کی بنا پر پیدائشی صفت مثلاً خوشنمائی ،خوبی اور خوش اوازی کے اعتبار سے اس کی قیمت لگائی جائے گی ، بندوں کے فعل یعنی تعلیم سے حاصل ہونے والی صفت کے اعتبار سے اس کی قیمت نہیں لگائی جائے گی لیکن مملوک ہونے کی صورت میں اس کے مالک کو اس کی قیمت اس جانور کو سکھا ہوا ہونے کے لحاظ سے دلائی جائے گی ۳؎ (جیسا کہ آگے مفصل آتاہے، مؤلف) پس اگر مقتول شکارمیں کوئی پیدائشی خوبی ہوگی مثلاً اگر کوئی پرندہ خوش آواز ہوگا تو اس کی وجہ سے اس کی قیمت زیادہ ہوگی، اس خوبی کے لحاظ سے اس کی قیمت لگانے کے بارے میں دوروایتیں ہیں ۴؎ ایک روایت یہ ہے کہ اس صفت کا اعتبار نہیں ہوگاکیونکہ یہ صفت اس کے شکار ہونے کی اصلیت میں سے نہیں ہے۔ دوسری روایت میں اس صفت کااعتبار کیا جائے گا کیونکہ یہ اس میں پیدائشی طور پر ثابت ہے جیسا کہ مطوّق (کنٹھے والا) کبوتر ۵؎۔ اور بدائع میں حسن وملاحت ( خوبی ) بالاتفاق معتبر ہونے کی بِنا پر پیدائشی خوبی کے معتبر ہونے کو ترجیح دی ہے ۶؎ جیسا کہ بدائع میں کہا ہے کہ کبوتر ( وغیرہ ) کا خوش آواز ہونا حسن وملاحت کا جزو ہے اور اس کی وجہ سے شکار کاضمان دیا جائے گا جیسا کہ اگر کسی مُحرِم نے کسی حسن وخوبی والے شکار کو قتل کردیا جس کی قیمت ( اس کی وجہ سے ) زیادہ ہے تو اس صفت کی وجہ سے اس کی جو قیمت ہوگی وہ واجب ہوگی اور جیسا کہ اگر کسی نے مطوّق یعنی گردن میں کنٹھے والے کبوتر یا فاختہ کو قتل کردیا ( تو اس کی وہ قیمت واجب ہوگی جو اس صفت کی وجہ سے بنے گی ۷؎