عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قائم مقام ہوگا اور جو درخت اس جنس سے ہو جس کو لوگ لگاتے ہیں اگر وہ خودبخود اُگ آئے تو اس کے کاٹنے پر کچھ واجب نہیں ہوتاکیونکہ وہ لوگوں کے بوئے ہوئے کے حکم میں ہے لیکن اگر اس پھل دار درخت کا کوئی مالک ہے تو ضمان کا واجب نہ ہونا اس کے مالک کی اجازت پر موقوف ہے ورنہ اس درخت کی قیمت اس کے مالک کو دینا واجب ہوگا جیسا کہ یہ پوشیدہ نہیں ہے ۴؎ (۱۰) اذخرخواہ تر ہو یا خشک اور کمأۃ (غاریقون،کھنبی جس کو سانپ کی چھتری کہتے ہیں) او ر خشک درخت یا خشک گھاس ( جو سبز نہ ہوسکتا ہو) اور ٹوٹا ہوا درخت یا ٹوٹی ہوئی گھاس جبکہ وہ کسی مکلف شخص کے فعل سے نہ ٹوٹی ہو ان سب کا کاٹنا جائز ہے اور ان کے کاٹنے میں کوئی ضمان واجب نہیں ہوگا اور ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے ۵؎ لیکن اگر خشک گھاس یا درخت کسی کی ملکیت ہوتو اس کے مالک کے لئے اس کی قیمت کا ضمان دے گا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ۶؎ اذخر مکہ معظمہ میں ایک خوشبودار مشہور نباتا ت ہے اس کو رسول اﷲ ﷺ نے ضمان سے مستثنیٰ فرمادیا ہے اور کھنبی زمین میں سے نہیں ہے اور یہ نہ بڑھتی ہے نہ باقی رہتی ہے اس لئے خشک نباتا ت کی مانند ہوئی ۷؎ (۱۱) حرم کے کا نٹوں کا کاٹنا بھی حرام ہے لیکن ان کے کاٹنے سے کچھ ضمان واجب نہیں ہوگا ۸؎ (۱۲) اگر کسی نے حدودِ حرم میں روٹی پکانے کے لئے تنور یاچولھے کا گڑھا کھودا یا کنوا کھود ا تاکہ اس کے پانی سے وضو کرے یا خیمہ لگا یا یا آگ جلائی، یا وہ خود چلا،یا اس کی سواری چلی اور ان صورتوں میں وہاں کی کچھ گھاس یا لکڑی ٹوٹ گئی تو اس پر کچھ واجب نہیں ہوگا ۹؎