عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
) لیکن حرم کی زمین میں اس زمین کا مالک خودبخود اگی ہوئی گھاس کا مالک ہوجاتا ہے ان دونوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ حدودِ حرم کے علاوہ کسی اور زمین میں اُگی ہوئی گھاس ہر شخص کے لئے مباح ہے اور وہ کسی کی دست درازی سے غیر محفوظ اگتی ہے پس اس کے لئے مالکِ زمین کسی دوسرے سے زیادہ حقدار نہیں ہے بخلاف حرم کی گھاس کے کہ وہ تعرض (دست درازی) سے محفوظ اگتی ہے پس زمین کا مالک دوسرے شخص کی بہ نسبت اس کازیادہ حقدار ہے ۲۲؎ (۸) اور پہلے (حرم کے شکارمیں ) بیان ہوچکاہے کہ حرم کا درخت کاٹنے میں درخت کی جڑ کااعتبار ہے اس کی ٹہنیوں کا نہیں کیونکہ شاخیں اپنی جڑ کے تابع ہوتی ہیں اس لئے درخت کی جڑ کی جگہ کااعتبار ہوگا نہ کہ تابع ( شاخ) کی جگہ کا اور اس لحاظ سے اس مسئلہ کی تین صورتیں ہیں ،اول یہ کہ درخت کی جڑ حرم میں ہے اور اس کی شاخیں حل میں ہیں تو وہ حرم کادرخت ہے پس اس درخت کی شاخیں کاٹنے پر اس کی قیمت واجب ہوگی، اور دوم یہ کہ اس کی جڑ حل میں ہے اور اس کی شاخیں حرم میں تو وہ حل کا درخت ہوگا پس اس درخت کی جڑ اور ٹہنیاں کاٹنے والے شخص پر کچھ ضمان واجب نہیں ہوگا اور سوم یہ کہ درخت کی بعض جڑیں حل میں ہیں اور بعض حرم میں تو احتیاطاًحرم کی جانب کو ترجیح دیتے ہوئے وہ درخت حرم ہی کا شمار ہوگا کیونکہ اس میں حرام ومباح دونوں جانب پائی گئی ہیں اس لئے احتیاطاً حرام کی جانب کو ترجیح دی جائے گی پس اس کے کاٹنے والے پر ضمان واجب ہوگا خواہ شاخ حل کی جانب ہو یا حرم کی جانب ، کیونکہ شاخیں اپنی جڑ کے تابع ہوتی ہیں ۳؎ …(۹)پھل دار درخت کا کاٹنا جائز ہے اگرچہ وہ خود رو ہو اور اس جنس سے نہ ہو جس کو لوگ عام طور پر بوتے ہوں، اس کا پھل لوگوں کے لگائے ہوئے درخت کے