عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے حاصل ہوگی اور بیچ دینے کی صورت میں خریدنے والے کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا بلا کراہت جائز ہے بخلاف حرم اورمحرم کے شکار کے کہ اس کا بیچنا جائز نہیں ہے اگرچہ اس کی قیمت اداکردی ہو پس خلاصہ یہ ہے کہ حرم کے کاٹے ہوئے درخت اور گھاس کی قیمت ادا کرنے کے بعد وہ اس کامالک ہوجاتا ہے اور حرم اور محرم کے شکار کا وہ شخص ہرگز مالک نہیں ہوتا ۲؎ (۴) خشک درخت اور گھاس کے کاٹنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا مضائقہ نہیں کیونکہ وہ مردہ ہوچکا اور بڑھنے کی حد سے باہر ہوگیا ہے ۳؎ اور اگر کسی نے حدودِ حرم میں کسی خشک درخت کو اکھاڑدیا تو اگراس کی جڑ کے ریشے اس درخت کو سیراب نہیں کررہے ہیں تو اس کی جڑ کے ریشوں کو کاٹنے میں مضائقہ نہیں ہے ۴؎ (۵) اگر کسی نے حرم میں درخت اکھاڑا اور اس کی قیمت کا تاوان ادا کردیا اس کے بعد اس نے درخت اسی جگہ پر لگادیا اور وہ اگ آیا پھر اس نے اس کو دوبارہ اکھاڑدیا تو اب اس پر اور کچھ واجب نہیں ہے کیونکہ وہ ضمان ادا کرنے کے بعد اس کا مالک ہوگیا ہے جیسا کہ پہلے اس کی طرف اشارہ ہوچکا ہے ۵؎ (۶) اور اگر کسی نے حرم کی گھاس کاٹی اگر اسی جگہ گھاس پھوٹ کر پہلے جیس بڑھ گئی تو اس سے جزا ساقط ہوجائے گی اور اگر پہلے سے کچھ کم رہی تو جس قدر نقصان ہوگا اس کا ضمان واجب ہوگا اور اگر اس کی جڑ ہی بالکل خشک ہوگئی تو اس کی قیمت واجب ہوگی۔ ۱؎ (۷) اگر گھاس حدودِ حرم کے علاوہ کسی اور جگہ ( کسی شخص کی زمین میں) خود بخود اگی تو صاحبِ زمین اس گھاس کا مالک نہیں ہوگا بخلاف درخت کے (کہ وہ اس کا مالک ہوجائے گا