عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
اگردرخت اور کاٹنے والے کی ملکیت ہوگا یاکسی کی بھی ملک نہیں ہوگا تو بالاتفاق اس پر کچھ واجب نہیں ہوگا ۱؎ (۳) اور جب حرم کا درخت یا نباتات کاٹنے والے پر قیمت واجب ہوگئی تو اس کا طریقہ وہی ہے جو حرم کے شکار کی جزا دینے کا ہے وہ یہ ہے کہ خواہ اس درخت یا گھاس کی قیمت سے غلہ خرید کر فقیروں( مسکینوں ) پر صدقہ کردے اور ہرمسکین کو نصف صاع گندم دیدے یا اگر اس قیمت سے ہدی یعنی قربانی کا جانور آسکتا ہے تو کتاب الاصل اورطحاوی کی روایت کے مطابق ہدی خرید کر حدودِ حرم میں ذبح کرے اوراس درخت یا گھاس کی جزا کی ادائیگی کے لئے ہمارے ائمہ کے نزدیک روزہ رکھنا جائز وکافی نہیں ہے بخلاف امام زفر ؒ کے جیسا کہ حلال کے بارے میں حرم کے شکار کا حکم ہے اور وہ شخص ضمان ادا کرنے کے بعد اس درخت اور گھاس کا مالک ہوجائے گا جیسا کہ حقوق العباد میں یہی حکم ہے اور جب اس کی قیمت ادا کردی تو اس شخص کو حرم کے کاٹے یا اکھاڑے ہوئے اس درخت وگھاس سے فروخت وغیرہ کے ذریعہ فائدہ اٹھانا مکروہ ہے کیونکہ وہ اس کو خبیث ذریعہ سے حاصل ہوا ہے اور اس لئے بھی مکروہ ہے کہ اس سے فائدہ حاصل کرنا حرم کی نباتات کو جڑ سے ختم کردینے کا باعث ہوگا کیونکہ اگر اس کی اجازت دیدی جائے تو جب بھی کسی کو ضرورت ہوگی وہ اس گھاس یا درخت کو اکھاڑیا کاٹ لے گا اور قیمت ادا کردے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہاں کوئی درخت اورگھاس باقی نہ رہے گی اور یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ کراہت تحریمی ہے پس اگر کسی نے حرم کا درخت اور گھاس کو اکھاڑنے اور کاٹنے کے بعد بیچ دیا تو جائز ومکروہ ہے اور اس کی قیمت کو خیرات کردے( یعنی خیرات کرنا واجب ہے ) کیونکہ یہ رقم ایسی بیچی ہوئی چیز کی ہے جو اس کو خبیث ذریعہ