عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے بوتے ہیں یا ایسی نہ ہو اور دوسری قسم اگر ایسی جنس سے ہو جس کو لوگ عام طور سے بوتے ہیں تو اس کے کاٹنے پر بھی کچھ واجب نہیں ہے ورنہ اس کے کاٹنے پر جزا واجب ہوتی ہے پس جس نباتات میں جزا واجب ہوتی ہے وہ ہے جو خود بخود اگی ہو اور ایسی جنس سے نہ ہو جس کو لوگ بوتے ہیں جیسے کیکر وغیرہ ورنہ وہ ٹوٹی ہوئی اور خشک ہو اور نہ اذخر ہو ۸؎ خواہ وہ کسی مملوکہ زمین میں اگی ہویا غیر مملوکہ میں ۹؎ (۲) پس اگر کسی شخص نے سبز درخت یا سبز گھاس کاٹی جو خود بخود اگی ہو اور وہ ایسی جنس سے ہے جس کو لوگ عام طور سے نہیں بوتے تو اس پر اﷲ تعالیٰ کے حق ( یعنی حرمتِ حرم ) کے لئے اس کی قیمت واجب ہوگی خواہ وہ شخص محرم ہو یا حلال ہو جبکہ وہ شرعی امور کامکّلف ہو اور اگر وہ کاٹی ہوئی نباتات کسی کی ملکیت ہوتو اس پر دو قیمتیں واجب ہوں گی ایک قیمت شرع کے حق کے لئے اور دوسری قیمت اس کے مالک کے حق کے لئے ہوگی اور یہ حکم صاحبین کے اس قول کی بنا پر ہے کہ کوئی شخص زمینِ حرم کا مالک ہوسکتا ہے اور یہ مفتی بہٖ قول ہے اور امام ابو حنیفہؒ سے بھی ایک روایت یہی ہے، اور امام صاحب سے ایک روایت یہ ہے کہ اس پر صرف ایک قیمت شرع کے حق کے لئے واجب ہوگی کیونکہ ان کے نزدیک زمینِ حرم کا مالک ہونا متحقق نہیں ہے اور یہ دو جزاؤں کا واجب ہونا جو اوپر بیان ہوا ہے اس وقت ہے جبکہ وہ مملوکہ درخت کاٹنے والے کی ملکیت نہ ہو ( بلکہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت ہو) اور درخت خشک بھی نہ ہو پس اگر وہ درخت کا ٹنے والے کی ملکیت ہوگا اور تروتازہ ہوگا تو اس پر صرف ایک قیمت حق شرع کی وجہ سے واجب ہوگی اور اگر وہ درخت خشک ہوگا اور کسی دوسرے شخص کی ملکیت ہوگا تو اس پر اس کے مالک کے لئے قیمت واجب ہوگی اور حق شرع کے لئے کچھ واجب نہیں ہوگا اور