عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بوتے یالگاتے ہیں اور کسی شخص نے اس کو حرم میں بویا یا لگایا ہو جیسے کھیتی (گندم وجووغیرہ یا درخت)۔دوم وہ جس کو کسی نے بویا یا لگایا ہو لیکن عام طور سے لوگ اس کو بوتے یا لگاتے نہیں جیسے پیلو غیرہ ۔سوم وہ جو خودبخود اُگ آیا ہو اور اس جنس سے ہو جس کو عام طور سے بوتے ہیں، ان تین قسم کے درخت اور نباتات کو کاٹنا اور اکھاڑنا اور کام میں لانا جائز ہے اور ان کے کاٹنے سے اس پر کوئی جزا واجب نہیں ہے( لیکن اگر کسی کی مِلک ہوتو مالک کو اس کی قیمت دینا واجب ہے جیسا کہ آگے آتا ہے)چہارم وہ ہے جو خودبخود اُگا ہواور اس جنس سے ہو جس کو لوگ عام طورنہیں بوتے جیسے کیکر وغیرہ اس قسم کے درخت اور گھاس کا کاٹنا اور اکھاڑنا اور جلانا محرم وحلال دونوں پر حرام وممنوع ہے خواہ اس قسم کادرخت یا گھاس کسی کی مملوکہ زمین میں ہو یا غیر مملوکہ میں ہو، سوائے خشک درخت یا گھاس اور پھلدار اور اذخر کے کہ اس کا کاٹنا جائز ہے ۶؎ (اذخر ایک خوشبو دار گھاس ہے جو چھت اور قبر کے کام آتی ہے ہندی میں اس کو گندھیس اور گندھیل اور بھڑائچ کی گھاس کہتے ہیں ۷؎ ) خلاصہ یہ ہے کہ حرم میں اگنے والی چیز یا اذخر ہے یا اس کے علاوہ کچھ اور ہے، اذخر کو شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ضمان سے مستثنیٰ کردیا ہے اور ( اس لئے اس کا کاٹنا اور اکھاڑنا جائز ہے ) اس کے علاوہ جو چیزیں ہیں وہ تین قسم کی ہیں یا وہ خشک ہیں یا ٹوٹی ہوئی ہیں یا ان دونوں کے علاوہ ہیں خشک کو بھی شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مستثنیٰ کردیا ہے اور ٹوٹی ہوئی نباتات بھی اسی کے حکم میں ہے اور جو نباتات ان دونوں کے علاوہ ہے ( یعنی سبز ہے اور ٹوٹی ہوئی نہیں ہے ) وہ دو قسم پر ہے یا وہ ایسی ہے جس کو کسی شخص نے بویا ہو یا ایسی ہے کہ اس کو کسی نے نہیں بویا خود اگی ہے تو پہلی قسم کے کاٹنے میں کچھ واجب نہیں ہے خواہ وہ ایسی جنس سے ہو جس کو لوگ عام طور