عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱۶) اگر کسی نے خیمہ لگایا اور اس کی رسی میں کوئی شکار الجھ گیا، یا کسی نے پانی کے لئے کنواں کھودا اور حرم کا کوئی شکار اس میں گرگیا تو اس پر کوئی جزا واجب نہیں ہوگی کیونکہ شکار کی موت کا سبب بننے میں وہ تعدی کرنیوالا نہیں ہے ۳؎ اور کنوئیں کے بارے میں یہ قید ہونی چاہئے کہ وہ اس نے اپنی مملوکہ زمین میں کھودا ہو یا وہ کنواں ویران( بغیرپانی کا) ہوتو اس پر ضمان واجب نہیں ہوگا ورنہ ضمان واجب ہوگا اور اگر وہ کنواں شکار کرنے ہی کے لئے کھودا تھا تو ( ہر حال میں ) اس پر ضمان واجب ہوگا ۴؎ (۱۷)اگر شکار پر حل میں تیر مارا اور حل میں وہ تیر کو جالگا پھر وہ شکار حرم میں داخل ہوا اور وہاں مرگیا تو اس شخص پر ضمان یعنی جزا واجب نہیں ہوگی لیکن احتیاطاً اس کا کھانا جائز نہیں ہے اور منسک الکبیر میں ہے کہ قیاساً اس کا کھانا حلال ہے اور استحساناً مکروہ ہے ۵؎ (۱۸)اگر تیر مارنے والا حل میں ہے اور شکار بھی حل میں ہے لیکن ان دونوں کی درمیان میں حرم کا قطعہ زمین ہے اور تیراس میں سے گزرا ہے تو اس شخص پر کچھ واجب نہیں ہے یعنی اس پر ضمان نہیں ہوگا اور اس کے کھانے میں بھی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ تیر پھینکنا اورشکار کے لگنا دونوں فعل حل میں واقع ہوئے ہیں اور سر زمینِ حرم سے تیر کے گزرنے سے جبکہ وہ حرم میں شکار کو نہ لگے یہ حرم میں شکار کرنا نہیں ہوگا ۶؎ اور یہی حکم کتّے اور باز کا ہے جبکہ ان دونوں کو ( حدودِ حل میں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ ) شکار پر چھوڑا گیا ہو( اور حل کی دونوں جگہوں کے درمیان زمین حرم کا حصہ واقع ہو جس میں سے اس کتے یا باز کو گزرنا پڑتا ہو) ۷؎