عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا اور اس شکار کو حرم میں پکڑکر ماردیا تو کتا چھوڑنے والے پر کچھ واجب نہیں ہے اور وہ شکا ر کھایا نہیں جائے گا ، جزا تو اس لئے واجب نہیں ہے کہ ضمان واجب ہونے کے لئے کتا چھوڑنے کی حالت کا اعتبار ہوگا کیونکہ ضمان کے واجب ہونے کا سبب کتے کاچھوڑنا ہے اور اس کا چھوڑنا حل میں پائے جانے کی وجہ سے مباح واقع ہوا ہے پس اس سے ضمان متعلق نہیں ہوگا اور اس شکار کے کھانے کی حرمت اس لئے ہے کہ شکار کے ذبح کے لئے کتے کا فعل حرم میں پایا گیا ہے پس اس کاکھانا حلال نہیں ہے جیسا کہ اگر آدمی حدودِ حرم میں اس کو ذبح کرتا تو اس کاکھانا حرام ہوتا کیونکہ کتے کا فعل آدمی کے فعل سے اعلیٰ نہیں ہوتا ۱۰؎ (۱۴)اگر کسی نے حدودِ حرم میں کتے کو بھیڑیئے پر چھوڑا اور اس نے کوئی شکار مارڈالا یا کسی نے بھیڑیئے کے لئے جال لگایا اور اس میں شکار کا جانور پھنس کر مرگیا تو اس شخص پر کوئی جزا واجب نہیں ہوگی اس لئے کہ اس کا مقصد بھیڑیئے کو مارنا تھا جس کا مارنا اس کے لئے حلال ہے پس اس کا کتے کو بھیڑیئے پر چھوڑنا اور اس کے لئے جال لگانا مباح ہے کیونکہ محرم وحلال کے لئے بھیڑیئے کو حل وحرم میں مارنا جائز ہے اس لئے شکار کے مرنے کا سبب بننے میں اس نے تعدی ( زیادتی وقصد ) نہیں کی کہ جس کی وجہ سے اس پر ضمان واجب ہوتا ۱؎ (۱۵)اگر کسی نے حدودِ حرم میں شکار کے لئے جال لگایا یا کوئی گڑھا کھودا پھر کوئی شکاراس میں واقع ہوکر مرگیا تو اس پر اس کی جزا واجب ہوگی کیونکہ اس کو حرم کے شکار کے لئے جال لگانے یا گڑھا کھودنے کی اجازت نہیں ہے پس شکار کے مرنے کا سبب بننے میں اس نے تعدی( قصد وزیادتی) کی اس لئے اس پر ضمان واجب ہوگا ۲؎