عمدۃ الفقہ - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حدودِ حرم سے حرم کے شکار پر تیر مارا تب بھی وہ اس کا ضمان دیگا اور اسی طرح اگر کسی حلال نے حل میںکسی شکار کے تیر مارا پھر شکار بھاگ گیا اور وہ تیر اس شکار کو حدودِحرم میں لگا تو استحساناً اس شخص پر ضمان یعنی جزا واجب ہوگی ۵؎ ۔ امام محمدؒ نے کتا ب الاصل میں کہا ہے میرے علم کے مطابق یہ امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے ۶؎ اور کرمانی نے کہا کہ اس پر جزا واجب ہوگی ور اس کو اس میں سے کھانا بھی نہیں چاہئے،اور مبسوط میں تصریح کی گئی کہ اس پر کوئی جزا واجب نہیں ہوگی لیکن اس کا کھانا جائز نہیں ہے اور اس میں کہا ہے کہ مسئلہ امام ابو حنیفہؒ کے اصول سے مستثنیٰ ہے کیونکہ ان کے نزدیک تیر مارنے کے مسئلہ کی تمام صورتوں میں تیر پھینکنے کی حالت کا اعتبار ہے تیر کے شکار پر لگنے کی حالت کااعتبار نہیں ہے سوائے خاص اس مسئلہ کے کہ اس میں احتیاطاً ضمان واجب ہوگا کیونکہ اس میں ضمان واجب کرنے والی جانب اور ضمان ساقط کرنے والی جانب جمع ہوگئی ہے اس لئے امام صاحبؒ نے احتیاطاً ضمان واجب کرنے والی جانب کو ترجیح دی ہے اور اس کا گوشت کھانے کے بارے میں تیر کے شکار پر لگنے کا اعتبار کیا ہے ۷؎ (۱۳)اگر کسی شخص نے حدود حرم میں کسی شکار پر کُتّا چھوڑا اوروہ کتّا حدودِ حرم میں چلاگیا اور وہاں اس کُتّے نے کسی شکار کو قتل کردیا تو اس شخص پر کوئی جزا واجب نہیں ہے کیونکہ شکار کے قتل کاسبب بننے میں تعدّی (زیادتی) کرنے والا نہیں ہے اور اسی طرح اگر اس کتے نے شکار کو ہنکا یا یہاں تک کہ اس کو حدودِ حرم میں داخل کردیا پھر اس نے اس شکار کو حدودِ حرم میں مارڈالا تو اس شخص پر کچھ جزا واجب نہیں ہے ۸؎ اور بدائع میں اس مسئلہ کی صراحت کی گئی ہے کہ اس شکار کو کھایا نہ جائے ۹؎ جیسا کہ اس میں کہا ہے کہ اگر کسی ( حلال ) شخض نے حدودِ حل میں حل کے شکار پر کتا چھوڑا پس کتے نے اس شکار کا پیچھا